021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر اجرت طے کیے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار،مزدوری کرنا،اختلاف کاحل
65079اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: (۱)۔ہم کل سات بھائی ہیں جن میں سے پانچ بھائی علی حسن،نعمت اللہ،نور محمد،محمدحسین علی،محمدعمر1994ءسے کراچی میں مقیم ہیں ہم تمام نے اس وقت سے اپنے بڑے بھائی علی حسن کی سرپرستی میں پٹھان کالونی میں سنار کی دوکان کھولی،اور مشترکہ طور پر کام شروع کیا،اور مشترکہ طور پر سناروں کی مزدوری کیا کرتے تھے،جسکی تمام آمدنی علی حسن کے پاس جایا کرتی تھی۔ (۲)۔اسکے بعد ہم نے فرنٹئر کا لونی سیوڑی بابا کے پاس رہائش اختیار کی یہاں پر ہم لوگوں نے دو دوکانیں کھولیں،ایک دوکان میں علی حسن اور میں بیٹھتے تھے جبکہ دوسری میں محمدعمر ،نعمت اللہ اور نورمحمد بیٹھ کر کام کرتے تھے،یہاں پر میں نے ایک سال تک دن رات بھائی کے ساتھ مل کر مشترکہ کام کیا،جسکی تمام آمدنی علی حسن کے پاس جاتی تھی، جب کہ مجھ کو صرف ۲۰ روپے ہفتہ خرچہ ملتا تھا۔ (۳)۔اسکے بعد میں محمدحسین علی نے دو سال تک نورمحمد اور نعمت اللہ کے ساتھ کام کیا اس دوران ہم لوگوں نے گاوں میں ایک عدد مکان خریدا جس کے کاغذات نور محمد نے اپنے نام پر بنوائے،جب کہ اس سے قبل ہماری کوئی جائیداد نہیں تھی ۔ (۴)۔اس کے بعد میں نے شیر شاہ میں دوکان کھولی جس کے لئے مجھے نعمت نے صرف ۵۰۰۰پانچ ہزار روپے دئیے،جب کہ گھر ہم دونوں کا ایک ساتھ ہی تھا،اس دوکان کو میں نے چھے ماہ تک چلایا،لیکن والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے مجھے گاوں جانا پڑا ،اور علاقہ میں ڈکیتیوں کی وجہ سے دوکان ختم کرنی پڑی۔اس تمام عرصے میں ۲۰۰۱ءسے لیکر ۲۰۰۲ءتک خرچہ میں ہی کرتا تھا شراکت میں ۔ (۶)۔اس کے بعد ۲۰۰۲ءمیں انور علی اور نعمت اللہ علیحدہ ہو گئےاسکے بعد یہ دونوں بھی علیحدہ ہو گئے،نور محمدکے ساتھ چھوٹا بھائی محمدعمر ہی رہ گیااور میں بدستور علی حسن کے ساتھ کام کرتا رہا،اور ایک سال تک مزید کام کیا،نورمحمد اور نعمت اللہ کے علیحدہ ہوتے ہی چھ ماہ بعد نورمحمد نے ایک مکان خریداجبکہ اس دوران میری رہائش نورمحمد کے ساتھ ہی تھی،تقریبا 2ماہ بعد میں نے رہائش بھی علی حسن کے ساتھ اختیار کرلی،اور ایک سال کے بعد نعمت اللہ نے مکان خریداجس کے تمام کاغذات ان لوگوں نے اپنے نام پر بنوائے،اور 1994ءسے لیکر 2002ءتک ہماری تمام مزدوری مشترکہ تھی۔ (۷)۔2000ءمیں نعمت اللہ نے شادی کی تھی جس کے تمام اخراجات مشترکہ تھےلیکن جب 2008 میں ہم نے شادی کی تو اس کے تمام اخراجات ہم نے خود کئے صرف 5000 ہزار نعمت اللہ نے دئیے اور 5000ہزار علی حسن نے دئیے۔ (۸)۔اس دوران جو بھی آمدنی ہوتی تھی اس کو یہ لوگ ایک دوسرے سے چھپاتے تھےاور علیحدہ ہونے پر ان لوگوں نے چھپائی ہوئی تمام آمدنی نکالی اور مکانات خریدے،جبکہ میں محمدحسین علی اور عمر علی در بدر رہے لیکن خالی ہاتھ ہونے کی وجہ سے ہم کسی قسم کا کاروبار نہ کر سکےلیکن اب مجبوری کی وجہ سے جب ہم نے اپنے بھائیوں سےاپنی 14 سالہ خدمت کا معاوضہ مانگا اور ان سے کہا کہ بچپن میں ہم نے آپ لوگوں کے شانہ بہ شانہ دن رات محنت کی ہے اور جوکمایا وہ آپ لوگوں کو دیا، لہذا ہماری محنت کا صلہ دو تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہم نے اپنی محنت سے بنایا ہے اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ (۹)۔مشترکہ آمدنی میں سے چھپانے کی وجہ سے قلیل عرصہ میں ان لوگوں نے مکانات اور بلڈگیں خریدی۔ لہذا جناب مفتیانِ کرام سے یہ التماس ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتائیں کی کیا ہم دونوں بھائیوں کا کوئی حصہ اپنے بھایئوں کے اموال میں بنتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(۱تا۹) صورت ِ مسئولہ میں محمد حسین علی اورمحمد عمر نے جتنا عرصہ دوسرے بھائيوں كے ساتھ مل كر كام كيا ہے اگر اس عرصہ میں آپس میں کچھ طے کئے بغير كام كرتے رہے تویہ اجارہ فاسدہ ہے لہذا دونوں مذکورہ عرصہ کام کی اجرتِ مثل لینے کے حقدار ہیں ، اور اجرتِ مثل سے مراد یہ ہے كہ عرف میں جو شخص اس طرح کا کام اتنا عرصہ کرے تو اس کی جو اجرت بنتی ہے وہ اجرتِ مثل ہے، اب اگر باقی بھائیوں نے ان دونوں کی اجرتِ مثل ادا نہ کی تو ان پر اس کی ادائیگی واجب ہو گی ورنہ وہ سخت گنہگار ہونگے۔ البتہ ان دونوں یعنی محمدحسین علی اور محمدعمر کو خرچہ کے طور پر جو رقم ملتی رہی وہ ان کی اجرتِ مثل سے کم کی جائے گی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 48): (فإن فسدت بالأخيرين) بجهالة المسمى وعدم التسمية (وجب أجر المثل) يعني الوسط منه ولا ينقص عن المسمى الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 326): حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله الدر المختار (4/ 325): (وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما) نصفين إن لم يعلم ما لكل (وما حصله أحدهما بإعانة صاحبه فله ولصاحبه أجر مثله بالغا ما بلغ عند محمد. وعند أبي يوسف لا يجاوز به نصف ثمن ذلك) المبسوط للسرخسي (11/ 87): اعلم بأن الاغتصاب أخذ مال الغير بما هو عدوان من الأسباب واللفظ مستعمل لغة في كل باب مالا كان المأخوذ أو غير مال. يقال غصبت زوجة فلان وولده ولكن في الشرع تمام حكم الغصب يختص بكون المأخوذ مالا متقوما ثم هو فعل محرم لأنه عدوان وظلم وقد تأكدت حرمته في الشرع بالكتاب والسنة أما الكتاب فقوله تعالى:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ} [النساء: 29] ……..وقال صلى الله عليه وسلم: "لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه" وقال صلى الله عليه وسلم: "سباب المسلم فسق وقتاله كفر وحرمة ماله كحرمة نفسه" وقال صلى الله عليه وسلم في خطبته: "ألا إن دماءكم وأعراضكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا"…
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب