زید کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ وہ عمر کے پاس جاتاہےاوراپنی ضرورت بتاتاہے۔ لیکن عمر اس کو قرض دینے سے انکار کر دیتاہے۔ چنانچہ زیدکہتاہے کہ تم میری یہ بائیک 2000ہزار کی خرید لو (بائیک کی بازاری قیمت 2000ہے)۔ اگلے مہینے جب پیسوں کا بندوبست ہوجائے گا تو میں تم سے بائیک2100 میں خرید لوں گا۔ کیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ معاملہ جائز نہیں۔ کیونکہ اس میں ایک سودے میں دوسرے سودے کی شرط رکھی گئی ہے،جس میں پہلے خریدار کا اضافی فائدہ ہے، جو کہ شرط فاسد ہے۔ نیز یہ معاملہ ایک واضح سودی حیلہ ہے جو کہ ناجائز ہے۔
اس معاملہ کی جائز صورت یہ ہے کہ قرض کا معاملہ دوبارہ خریداری کی شرط کے بغیر کیا جائے، پھر اگر اتفاقاً زید اس سے اپنی بائیک کم وبیش قیمت میں خرید لے، تو یہ معاملہ جائز ہوگا۔
حوالہ جات
تحفة الفقهاء (2 / 52):
ولو شرطا شرطا لا يقتضيه العقد ولا يلائمه ولا يتعارفه الناس وفيه منفعة لأحد العاقدين بأن اشترى حنطة على أن يطحنها البائع أو ثوبا على أن يخيطه البائع أو اشترى حنطة على أن يتركها في دار البائع شهرا ونحو ذلك فالبيع فاسد۔
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1 / 189):
أما إذا اشترط تركها على رءوس النخل فسد البيع لأنه شرط لا يقتضيه العقد وهو شرط شغل ملك الغير وهو صفقتان في صفقة واحدة وهو إعارة أو إجارة في بيع وفيه منفعة لأحد المتعاقدين لأن المشتري شرط لنفسه زيادة مال يحصل له سوى ما دخل تحت البيع من مال البائع