021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نمازمغرب میں تاخیر سے متعلق احسن الفتاوی کے ایک مسئلہ پر اعتراض کا جواب
65317نماز کا بیاناوقاتِ نمازکا بیان

سوال

کیا  فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ مغرب میں تاخیر اور مغرب سے قبل دو رکعت نماز نفل کے بارے میں ایک مفتی صاحب نے کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مغرب کی اذان اور نماز میں مروجہ تین چار منٹ کا وقفہ خلاف مذہب ہے اور اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نماز مذہب حنفی میں مطلقا مکروہ ہیں،نیز اس بارے میں جامعۃ الرشید کراچی اوراحسن الفتاوی کی فتاوی کےجوابات پر اعتراضات کئے ہیں اور انہیں خلاف تحقیق اور خلاف مذہب لکھا ہے۔  اس مسئلہ کی تحقیق مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مغرب کے بعد تعجیل کے استحباب،اسی طرح اذان اور نماز میں فصل کی حد تک کی تاخیر کے جواز بلکہ  فی الجملہ استحباب وافضلیت میں اختلاف نہیں، البتہ اس سے زائد مقدار کی تاخیر کے بارے میں اختلاف روایات بھی ہے اور اختلاف عبارات بھی،لہذا اول مجموعی طور پر اس بارے اصحاب مذہب بالخصوص امام صاحب رحمہ اللہ تعالی سے  منقول مختلف روایات لکھی جاتی ہیں اور پھرباعتبار حکم ان کے درجات لکھے جاتے ہیں:

۱۔ تین چھوٹی آیات یاان کی بقدر ایک بڑی آیت کے برابر وقفہ کیا جائے۔

۲۔تین چار قدم چلنے کی بقدر وقفہ  کیا جائے۔علی الروایتین المشہورتین المزبورتین فی المتون والشروح

۳۔  قلیل(معمولی) وقفہ کیا جائے۔علی روایۃ القنیۃ

۴۔غروب شفق تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔ علی روایۃ الحسن کما فی شرح  المنیۃ و البحر والفتح  وغیرھانقلا عن المبتغی  ، وقیل بعد نقلھا "ولایبعد"(جس کی تحدید احسن الفتاوی:ج۲،ص۱۴۶ کے مطابق۴۵ منٹ بنتی ہے۔)

(یہ چاروں روایتیں امام صاحب سے منقول ہیں۔)

۵۔ صاحبین سے بقدر جلسہ خفیفہ  وقفہ کی روایت منقول ہے۔

۶۔ بعض اصحاب مذہب سے منقول روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قبل ظہور النجوم تک تاخیر کا جواز  معلوم ہوتا ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 227)

(قوله ويستحب تعجيل المغرب) هو بأن لا يفصل بين الأذان والإقامة إلا بجلسة خفيفة أو سكتة على الخلاف الذي سيأتي: وتأخيرها لصلاة ركعتين مكروه، وهي خلافية وستذكر في باب النوافل إن شاء الله تعالى.

قال في القنية إلا أن يكون قليلا، وما روى الأصحاب عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه أخرها حتى بدا نجم فأعتق رقبة۔ يقتضي أن ذلك القليل الذي لا يتعلق به كراهة هو ما قبل ظهور النجم، وفي المنية لا يكره في السفر وللمائدة أو كان يوم غيم، وفي القنية لو أخرها بتطويل القراءة فيه خلاف.

وروى الحسن عن أبي حنيفة أنه لا يكره ما لم يغب الشفق ولا يبعد، ودليل الكراهة التشبه باليهود.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 261)

 (قوله: والمغرب) أي وندب تعجيلها لحديث الصحيحين «كان يصلي المغرب إذا غربت الشمس وتوارت بالحجاب» ويكره تأخيرها إلى اشتباك النجوم لرواية أحمد «لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب حتى تشتبك النجوم» ذكره الشارح وفيه بحث إذ مقتضاه الندب لا الكراهة لجواز الإباحة وفي المبتغى بالمعجمة ويكره تأخير المغرب في رواية وفي أخرى لا ما لم يغب الشفق الأصح هو الأول إلا من عذر كالسفر ونحوه أو يكون قليلا وفي الكراهة بتطويل القراءة خلاف. اهـ.

درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 56)

(ويجلس بينهما) أي الأذان والإقامة (إلا في المغرب) استثناء من قوله ويثوب ويجلس بينهما أما الأول فلأن التثويب لإعلام الجماعة وهم في المغرب حاضرون لضيق وقته. وأما الثاني فلأن التأخير مكروه فيكتفى بأدنى الفصل احترازا عنه

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 369)

و(ای المستحب) تعجيل (مغرب مطلقا) وتأخيره قدر ركعتين يكره تنزيها

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 369)

(قوله: يكره تنزيها) أفاد أن المراد بالتعجيل أن لا يفصل بين الأذان والإقامة بغير جلسة أو سكتة على الخلاف. وأن ما في القنية من استثناء التأخير القليل محمول على ما دون الركعتين، وأن الزائد على القليل إلى اشتباك النجوم مكروه تنزيها، وما بعده تحريما إلا بعذر كما مر قال في شرح المنية: والذي اقتضته الأخبار كراهة التأخير إلى ظهور النجم وما قبله مسكوت عنه،فهو على الإباحة وإن كان المستحب التعجيل. اهـ. ونحوه ما قدمناه عن الحلية وما في النهر من أن ما في الحلية مبني على خلاف الأصح: أي المذكور في المبتغى بقوله يكره تأخير المغرب في رواية. وفي أخرى: لا، ما لم يغب الشفق. والأصح الأول إلا لعذر اهـ فيه نظر؛ لأن الظاهر أن المراد بالأصح التأخير إلى ظهور النجم أو إلى غيبوبة الشفق فلا ينافي أنه إلى ما قبل ذلك مكروه تنزيها لترك المستحب وهو التعجيل تأمل.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 368)

(و) أخر (المغرب إلى اشتباك النجوم) أي كثرتها (كره)

(قوله: إلى اشتباك النجوم) هو الأصح. وفي رواية لا يكره ما لم يغب الشفق بحر أي الشفق الأحمر؛ لأنه وقت مختلف فيه فيقع الشك. وفي الحلية بعد كلام: والظاهر أن السنة فعل المغرب فورا وبعده مباح إلى اشتباك النجوم فيكره بلا عذر اهـ قلت أي يكره تحريما، والظاهر أنه أراد بالمباح ما لا يمنع فلا ينافي كراهة التنزيه ويأتي تمامه قريبا.

(قوله: أي كثرتها) قال في الحلية: واشتباكها أن يظهر صغارها وكبارها حتى لا يخفى منها شيء، فهو عبارة عن كثرتها وانضمام بعضها إلى بعض. اهـ.

اورامام صاحب سے منقول مشہور روایت(نمبر۱و۲) اور صاحبین کےقول کے درمیان اختلاف کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ یہ اختلاف روایات افضلیت کے اعتبار سے ہے، جواز کے اعتبار سے نہیں،لہذا امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بیٹھ کر تین تسبیح کی بقدر وقفہ کرنا بھی جائزہے۔البتہ مستحب یہ ہے کہ نہ بیٹھے۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 92)

وذكر الحلواني أن الاختلاف في الأفضلية وقال الشافعي يصلي ركعتين لإطلاق ما روينا ولنا أنه - عليه الصلاة والسلام - لم يفعله مع حرصه على الصلاة؛ ولأنه يؤدي إلى تأخير المغرب وهو مكروه على ما بينا

معلوم ہوا کہ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان مختصروقفہ کرنا  بلاکراہت جائز ہے، البتہ اس کی تعیین میں درج بالا اختلاف روایات وفقہی عبارات واکابر کے فتاوی کی روشنی میں درجات کی تفصیل بالترتیب درج ذیل ہے :

 (۱)درجہ استحباب: کم از کم مختصر ترین وقفہ کرنا یعنی دو تین تسبیح یا آیات کی بقدربیٹھ کریا کھڑے کھڑے فصل کرنا مستحب ہے،بشرطیکہ اہل محلہ کی اکثریت حاضرہواورجماعت تیارہو۔

(۲)درجہ اباحت:مغرب کے بعد  مختصر دورکعت کی بقدر(یعنی دوسےتین منٹ کا) وقفہ صرف جائز ہے، کما تدل علیہ روایۃ القنیۃ بتاویل ابن الھمام رحمہ اللہ تعالی (بالخصوص جبکہ اس سے مقصد جماعت میں اہل محلہ کی شرکت کا انتظار ہوجواذان اورنمازباجماعت کی مشروعیت کا بنیادی مقصد بھی ہے،البتہ جماعت تیار وحاضر ہو تو اتنی تاخیربھی خلاف اولی ہوگی،جمعا بین الروایات) اوراس قدروقفہ کے جوازمیں کسی کا اختلاف روایۃ منقول نہیں،لہذاس قدروقفہ کا جواز بھی متفق علیہ ہوا،جیساکہ آگے مزیدتفصیل آتی ہے۔)

(۳)درجہ مختلف فیہ:دو(غیر مختصر) رکعت یااس سے زائد(قبل ظہورالنجوم)تک تاخیریعنی چارپانچ تا دس منٹ تک کی تاخیر،یہ بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے اور بعض کے نزدیک مباح اور خلاف استحاب ہے، اور عذر کی صورت میں مطلقامکروہ نہیں۔

(۴)  درجہ کراہت تنزیہی:اس سے زائد(بعدظہور النجم تک)یعنی دس منٹ سےزائدپندرہ،بیس منٹ تک کی تاخیر یعنی ستارے جزوی طور پر ظاہر تو ہوں،لیکن کثرت کے ساتھ ظاہر نہ ہوئے ہیں، بلاعذر اس قدر تاخیر مکروہ تنزیہی ہے۔

(۵)درجہ کراہت تحریمی:واضح اشتباک ہونے یا اس سےبھی زائدغروب شفق تک تاخیربلاعذر بالاتفاق مکروہ تحریمی ہے اور عذر کی صورت میں کراہت نہیں۔

مؤلف کے چندمغالطات کا تنقیدی جائزہ:

مؤلف نےاپنی کتاب میں جامعہ کے فتوی میں مذکورتاخیر کی چار صورتوں میں سے دو سرے اور تیسرے درجہ کو ایک ہی قرار دینے پراصرار کیاہے،اوردعوی کیا ہے کہ ان دونوں درجوں میں بلا خلاف کراہت تنزیہی ہے، جو خلاف تحقیق وتفقہ ہے،جیساکہ شرح منیہ حلبی اور حلیہ کی عبارات سے بھی معلوم ہوتا ہے،چنانچہ شرح منیہ حلبی اور حلیہ کی عبارات علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی نے اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لائی ہیں کہ ان جیسے حضرات کے کلام کے مطابق رکعتین سے زائدقبل ظہور نجم تک کا وقفہ مکروہ بھی نہیں،اگرچہ خلاف استحباب ہےاورخودعلامہ شامی رحمہ اللہ تعالی نے اگرچہ ان حضرات کے کلام کی تاویل فرمائی ہے،لیکن صاحب مذہب سے منقول روایات اور خود ان حضرات کے کلام کے سیاق کے پیش نظر،یہ تاویل قوی نہیں، یہی وجہ ہےکہ(امداد الفتاوی:ج۱،ص۱۵۸)میں اس درجہ ثانیہ میں کراہت واباحت میں اختلاف ہی  کونقل کیا گیا ہے۔نیز جامعہ کے فتوی میں اس قدراجازت بھی کلی طور پر نہیں دی گئی بلکہ اس میں تصریح ہے کہ (مثلاجماعت کے انتظار جیسی)عمومی ضرورت کے پیش نظر کسی مسجد میں اس قدر مستقل وقفہ بھی بلاکراہت جائز ہے،لہذاعذر اور ضرورت کے موقع پربھی ایسی مختلف فیہ درجہ کی کراہت تنزیہیہ پر اصرار کا علم وفقہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ خود کراہت تنزیہیہ کے قائلین کی تصریحات کے بھی صریح خلاف ہے۔لہذا مؤلف کا جامعہ کی طرف سےایک عام( مجبوری اور ضرورت سے غیر مقید) حالت سے متعلق پوچھے گئے سؤال کے جواب میں سابق( مقید بالضرورت والعذر جواب و) فتوی کا حوالہ دینے سے جامعہ کے موقف یاجواب میں تبدیلی یعنی عموم واطلاق پر استدلال کرنا قطعا درست نہیں اس لیے کہ سؤال کے عموم اور اطلاق سے کسی صریح مقید جواب کو عموم یا اطلاق پر حمل کرنے کا شرعا،عقلاوعرفاکوئی جوازیالزوم نہیں۔

اسی طرح مؤلف نے تاخیر سے متعلق امام صاحب کی صرف مشہور روایت کو بنیاد بنا یا،جبکہ قنیہ کی روایت  کا  یہ جواب دیا ہےکہ یہ پہلے کہیں نہیں ملتا، لیکن اس پر عرض یہ ہے کہ مؤلف کو نہ ملنے سے پہلے والوں کو نہ ملنے کی نفی لازم نہیں  آتی،نیز مؤلف سے پہلے کسی بھی امام یا فقیہ نے اس کو اس بنیاد پر رد نہیں کیا،بلکہ اس کی دیگر روایات کے مقابلے میں تاویل کی ہے جو اس کی دلیل بین ہے کہ یہ روایت بھی مستند اور قابل اعتناء ہے۔نیز اس کی جو تاویل علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ تعالی نے بیان فرمائی اس کے خلاف کوئی بھی ایک قول منقول نہیں،لہذا علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ تعالی کی رائے خلاف جمہور نہیں،حاصل یہ کہ یہ مقدار(دو سے تین منٹ)تاخیر بھی متفق علیہ ہی ہے۔

واضح رہے کہ متوسط درجہ کی دورکعت کی مقدارچارتا پانچ  منٹ بنتی ہے،اوردومختصررکعت کی مقداردوتا تین منٹ بنتی ہے اور اس کے جواز میں بھی کلام نہیں ،لہذا اگر علامہ ابن ھمام اور بعض دیگر حضرات محققین  رحمہم اللہ نے اس  وقت دومختصررکعت کی بقدر(دوسے تین منٹ) وقفہ کو جائز قرار دینے کی تصریح فرمائی ہے اور خود اس نماز کو مباح قرار دیا ہے تو اس کا سوائے اس کے کیا مطلب بنے گا کہ اس قدر تاخیر کسی بھی مباح عمل کی وجہ سے مطلقا جائز ہے،نیز ابن ہمام اور علامہ ابن نجیم (کما فی منحۃ الخالق )،حضرت حکیم الامۃ تھانوی،حضرت شاہ انور شاہ کشمیری اوربالخصوص علامہ ظفراحمدعثمانی وغیرہ متعدد کبار اہل علم واکابردیوبندرحمہم اللہ تعالی کی صریح اور واضح رائے بھی یہی تھی،لہذا ان کی آراء وفتاوی کو خلاف حقیقت نقل کرنا  یا خلاف ظاہر تاویل کرنادرست نہیں۔اسی طرح حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی  کے مادون الرکعتین سے  کراہت کی نفی کرنے سے تو دومختصر رکعت کی نفی ثابت نہیں ہوتی بلکہ اباحت ہی ثابت ہوتی ہے،نیز اگر علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی بھی اس مسئلہ میں ابن ھمام کے خلاف تھے تو اس مقام پر علامہ شامی  رحمہ اللہ تعالی نے علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ تعالی کی تحقیق کی ان الفاظ میں تعریف کیوں فرمائی؟:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 14)

"واستدل لذلك بما حقه أن يكتب بسواد الأحداق"

باقی صاحب نہر کا علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ تعالی کی کتاب الاذان کی عبارت سے استدلال اور الزام اس لیے درست نہیں کہ باب الاذان میں علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ تعالی نے قنیہ کی تاخیرقلیل کی استثناءوالی روایت کو متوسط مقدار کی دورکعت کی نماز سے کمی پر محمول کیا ہے اور باب النوافل میں دو مختصر رکعتوں کی اجازت دی ہے ،لہذا نہ تو ابن ہمام کے کلام میں تعارض ہے اور نہ ہی اس سے صاحب نہر کا استدلال یا الزام درست ہے۔والفرق بین التوسط والتجوز ظاھر۔

چنانچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ تعالی نے بھی بحوالہ حلبی صاحب نہر کے صاحب  فتح القدیرپر رد کو غیر ظاہر فرمایا ہے۔

قال الطحطاوی رحمہ اللہ تعالی فی حاشیتہ علی الدر🙁۱/۱۷۹)

(تحت قولہ :(و)تعجیل (مغرب مطلقا) وتاخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیہا

(قولہ ویکرہ تنزیہا) الذی اختارہ المحقق فی الفتح ووافقہ فی البحر ندبہا اذا تجوز فیھما ای لم یطول ورد صاحب النھر لایظھر کما یظھر للمتامل حلبی۔

وقال ایضا (۱/۱۸۱):

تحت قولہ(وقبل) صلاۃ (مغرب) لکراھۃ تاخیرہ الا یسیرا

(قولہ الا یسیرا)الرکعتان لاتزید علی الیسیر اذا تجوز فیھما وفی صحیح البخاری انہ صلی اللہ علیہ وسلم قال صلوا قبل المغرب رکعتین وھو امر ندب ومنع صاحب النھر لایظھر لوجود الدلیل الآمر بھما فی الصحیح فیحمل کلام ابن عمر بالمنع علی عدم الاطلاع۔

یہ تفصیل تو  تاخیر مغرب سے متعلق تھی اور دورکعت قبل از مغرب کے بارے میں مشہور اگرچہ کراہت کا قول ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ ائمہ مذہب سے مغرب سے قبل نوافل کےاستحباب اور سنیت کی نفی تو منقول ہے،لیکن کراہت کا قول منقول نہیں،چنانچہ متون میں صرف رکعتین قبل المغرب کی مستقل مشروعیت( سنیت واستحباب) کی نفی منقول ہے، جسے بعض  نےمطلق کراہت کا قول سمجھ کر کراہت کا قول کرلیا،لیکن محققین نے ( قنیہ کی روایت وغیرہ  کی روشنی میں)مختصر دو رکعت کو جائز قرار دیا ہے اوررکعتین کی نفی کے قول کو نفی سنیت یا استحباب پر حمل کیا ہےکمافی البحرو الفتح  وہو الصحیح،لہذااصل مذہب میں اس کی سنیت اور استحباب کی نفی ہے،اور اسی میں اختلاف ہے،نفس جواز میں امام صاحب اور ائمہ مذہب سےاختلاف منقول نہیں،کما فی الفتح وکذافی اعلاء السنن،لہذااگر جماعت تیار ہو تو محض دو مختصر رکعت کے لیے تاخیر خلاف افضل یا مکروہ تنزیہی ہوگی، اور اگر جماعت حاضر نہ ہو یا کوئی اور عذر ہو مثلا رمضان وغیرہ میں افطار وغیرہ کی وجہ سے تاخیر تو ایسی صورت میں فارغ بیٹھنے سے نماز میں مشغول ہونا بہتر ہے۔یہی وجہ ہے کہ متعدد کبار احناف نے اس مسئلہ میں قبل از مغرب دو رکعت کی سنیت اوراستحباب کی نفی سے ان کی مندوبیت کی نفی کا انکار کیا جیساکہ علامہ طحطاوی،امام سندھی ،علامہ رحمتی اور علامہ رافعی وغیرہم رحمہم اللہ تعالی۔ لہذا معلوم ہوا کہ مغرب سے قبل دورکعت(بالخصوص مختصر)پڑھنے کو مطلقا مکروہ اور خلاف مذہب کہنا خلاف تحقیق ہے۔

واضح رہے کہ احسن الفتاوی باب النوافل (3/480) میں دورکعت مختصر پڑھنے کے جواز کی تصریح ہے، لہذا باب المواقیت (2/138)میں مذکور دو رکعت سے بھی یہی مختصر دو رکعت ہی مراد ہیں، جس کی مقدار دو سے تین منٹ بنتی ہے اور امام صاحب سے منقول قنیہ کی روایت کی روشنی میں اس سے یہی مراد لیے جانے میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ،لہذا معلوم ہواکہ اس قدر تاخیر میں کوئی اختلاف نہیں،نیز احسن الفتاوی کے علاوہ دیگر کتب فتاوی میں بھی ان دورکعتوں کواسی طرح مباح اورجائزلکھاہے،مثلااعلاءالسنن:۲ج،ص۶۹،فتاوی محمودیہ:ج۲۲،ص۱۹۳،آپ کے مسائل اورانکا حل:۴،ص۲۱۰ وغیرہ وغیرہ۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 261)
وفي فتح القدير تعجيلها هو أن لا يفصل بين الأذان والإقامة إلا بجلسة خفيفة أو سكتة على الخلاف الذي سيأتي وتأخيرها لصلاة ركعتين مكروهة وما روى الأصحاب عن ابن عمر أنه أخرها حتى بدا نجم فأعتق رقبة يقتضي أن ذلك القليل الذي لا يتعلق به كراهة هو ما قبل ظهور النجم،
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی فی المنحۃ:
 (قوله: يقتضي أن ذلك القليل إلخ) قال في النهر وفي الأذان من الفتح قولهم بكراهة الركعتين قبل المغرب يشير إلى أن تأخير المغرب قدرهما مكروه وقدمنا عن القنية استثناء القليل فيجب حمله على ما هو أقل من قدرهما إذا توسط فيهما ليتفق كلام الأصحاب. اهـ. وهذا هو الحق. اهـ.
وأشار بقوله وهذا هو الحق إلى الرد على صاحب الفتح وعلى صاحب البحر حيث اختار عدم كراهة الركعتين قبل المغرب وسيأتي له زيادة۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 376)
(وقبل) صلاة (مغرب) لكراهة تأخيره إلا يسيرا۔
 (قوله: وقبل صلاة المغرب) عليه أكثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالك، وأحد الوجهين عن الشافعي، لما ثبت في الصحيحين وغيرهما مما يفيد «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يواظب على صلاة المغرب بأصحابه عقب الغروب» ، «ولقول ابن عمر - رضي الله عنهما - ما رأيت أحدا على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يصليهما» رواه أبو داود وسكت عنه والمنذري في مختصره وإسناده حسن. وروى محمد عن أبي حنيفة عن حماد أنه سأل إبراهيم النخعي عن الصلاة قبل المغرب، قال: فنهى عنها، وقال: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأبا بكر وعمر لم يكونوا يصلونها. وقال القاضي أبو بكر بن العربي: اختلف الصحابة في ذلك ولم يفعله أحد بعدهم، فهذا يعارض ما روي من فعل الصحابة ومن أمره - صلى الله عليه وسلم - بصلاتهما؛ لأنه إذا اتفق الناس على ترك العمل بالحديث المرفوع لا يجوز العمل به؛ لأنه دليل ضعفه على ما عرف في موضعه ولو كان ذلك مشتهرا بين الصحابة لما خفي على ابن عمر، أو يحمل ذلك على أنه كان قبل الأمر بتعجيل المغرب، وتمامه في شرحي المنية وغيرهما.
(قوله: لكراهة تأخيره) الأولى تأخيرها أي الصلاة، وقوله إلا يسيرا أفاد أنه ما دون صلاة ركعتين بقدر جلسة، وقدمنا أن الزائد عليه مكروه تنزيها ما لم تشتبك النجوم، وأفاد في الفتح وأقره في الحلية والبحر أن صلاة ركعتين إذا تجوز فيها لا تزيد على اليسير فيباح فعلهما، وقد أطال في تحقيق ذلك في الفتح في باب الوتر والنوافل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 14)
 وحرر إباحة ركعتين خفيفتين قبل المغرب؛ وأقره في البحر والمصنف.
 (قوله وحرر إباحة ركعتين إلخ) فإنه ذكر أنه ذهبت طائفة إلى ندب فعلهما، وأنه أنكره كثير من السلف وأصحابنا ومالك. واستدل لذلك بما حقه أن يكتب بسواد الأحداق؛ ثم قال: والثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا عن القنية استثناء القليل، والركعتان لا يزيد على القليل إذا تجوز فيهما اهـ وقدمنا في مواقيت الصلاة بعض الكلام على ذلك.
وقال العلامۃ الرافعی رحمہ اللہ تعالی: ( قولہ واستدل لذلک بما حقہ الخ) قال السندی نازعہ ای صاحب الفتح الشیخ ابو الحسن السندی فی حاشیتہ علی الفتح فی جمیع استدلالاتہ واثبت مندوبیتہا وفی کلام الرحمتی میل الیہ لانہ قال وفی البخاری صلوا قبل المغرب  رکعتین  وھو الذی اعتقدہ وماذکرہ  فی الجواب لایدافعہ اھ ولولا خشیۃ التطویل لاوردت کلام ابن الھمام ثم تعقب الشیخ ابی الحسن السندی لہ اھ ۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۳رجب۱۴۴۰ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے