03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مقروض کو زکاۃ دے کرپھر قرض کے طورپر واپس لینے کی ایک صورت
64234زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

مفتی صاحب! میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں جس مارکیٹ میں کام کرتاہوں، وہاں ایک آدمی بھی کام کرتاتھا، جس سے میری اچھی سلام دعا تھی۔ ایک دفعہ اس کو کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی، جس کا اس نے مجھ سے تذکرہ کیا۔ تو میں نے اس کو ۵۰ ہزار روپے قرض دے دیے۔ جب اس کی ضرورت پوری ہوگئی تو میں نے اس سے اپنے پیسے مانگے ۔ پہلے تو کچھ عرصہ تک وہ ٹال مٹول کرتا رہا پھر اچانک وہ کام چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کا فون نمبر میرے پاس تھا۔ اس پر رابطہ کیا تو وہ بند جارہا تھا۔ جس دکان پر وہ کام کرتا تھا وہاں سے معلوم کیا تو ان کے پاس بھی اس کا کوئی پتہ نہیں تھا اور وہ ان کے پیسے بھی لے کر بھاگ گیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ان پیسوں سے زکاۃ ادا کروں گا۔ مجھ پر کئی سال کی زکاۃ ہے جو میں نے ادا نہیں کی،اور یہ زکاۃ کی رقم بھی تقریباً ۵۰ ہزار بنتی ہے۔ اس سلسلے میں میں نے اپنے ایک جاننے والے مولانا صاحب سے پوچھا کہ کیا میں ان پیسوں کو زکاۃ میں شمار کرسکتاہوں؟ تو انہوں نے اس سے منع کردیا کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ پھر اس کے بعد انہوں نے ایک صورت بتائی کہ ایسا کرو کہ کسی طرح اس آدمی سے رابطہ کرو اور اس سے، اس کی طرف سے اپنے کسی قابل اعتماد بندے کے لیے زکاۃ وصول کرنے کی اجازت لے لوکہ تمہارا کوئی آدمی اس مقروض کی طرف سے اس کی اجازت سے زکاۃ وصول کرلے۔پھر تم اس کو زکاۃ ادا کر دو۔ جب اس کے پاس زکاۃ کے پیسے آجائیں گے تو تم ان پیسوں کو اپنے قرض کے طور پر وصول کر لو۔اس طرح کرنا جائز ہے۔تو میں نے اس پر عمل کرنے کے لیے اس آدمی سے اجازت لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن کافی کوشش کے بعد بھی اس سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ یہ بات میں نے مولانا صاحب کو بتائی کہ مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلا۔ اس سے رابطہ نہیں ہورہا تو اجازت کیسے لی جائے۔ اگر کوئی دوسری صورت ہو تو بتائیں۔ تو پھر انہوں نے بتایاکہ ایسا کرو کہ تم اپنے کسی قابل اعتماد آدمی ،جومستحق زکاۃ بھی ہو، اس کو بطور قرض ۵۰ ہزار دے دو۔ پھر یہ آدمی، مقروض کی طرف سے تمہارا قرض ادا کردے، جب تمہارا قرض تمہیں واپس مل جائے تو پھر تم اس سے اپنےقابل اعتماد آدمی کو جو اب تمہارا مقروض بھی ہے اور مستحق زکاۃ بھی ہے، اس کو زکاۃ ادا کردو۔پھر اس سے اپنا قرض وصول کرلو۔اس طرح سے تمہاری زکاۃ بھی ادا ہوجائے گی اور مقروض کی قرض سے خلاصی بھی ہوجائے گی۔ یہ بات مولوی صاحب نے بتائی لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ کسی دارالافتاء سے معلوم بھی کرلو۔ توآپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ ۔جزا ک اللہ خیراً۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جی! اس طرح کرنا جائز ہے۔ اس سے زکاۃ بھی ادا ہوجائے گی اور مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔البتہ دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: ۱۔ یہ یقین دہانی کرلیں کہ جس کو زکاۃ دی جارہی ہے وہ زکاۃ کامستحق ہو۔ ۲۔پہلے زکاۃ مکمل طور پر ادا کردی جائے کہ زکاۃ کے پیسوں پر اس کا قبضہ ہوجائےاورپیسے اس کی ملکیت میں آجائیں پھر اس سے قرض کے طور پر پیسے لیے جائیں۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 43): وكذا العين قابل للتمليك من جميع الناس والدين لا يقبل التمليك لغير من عليه الدين، وأداء الدين عن العين لا يجوز بأن كان له على فقير خمسة دراهم وله مائتا درهم عين حال عليها الحول فتصدق بالخمسة على الفقير ناويا عن زكاة المائتين؛ لأنه أداء الناقص عن الكامل فلا يخرج عما عليه، والحيلة في الجواز أن يتصدق عليه بخمسة دراهم عين ينوي عن زكاة المائتين ثم يأخذها منه قضاء عن دينه فيجوز ويحل له ذلك. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 270): واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين، وعن الدين يجوز وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز. وحيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه، ولو امتنع المديون مد يده وأخذها لكونه ظفر بجنس حقه، فإن مانعه رفعه للقاضي۔ (قوله أن يعطي مديونه إلخ) قال في الأشباه وهو أفضل من غيره أي لأنه يصير وسيلة إلى براءة ذمة المديون (قوله لكونه ظفر بجنس حقه) نقل العلامة البيري في آخر شرح الأشباه أن الدراهم والدنانير جنس واحد في مسألة الظفر (قوله فإن مانعه إلخ) والحيلة إذا خاف ذلك ما في الأشباه، وهو أن يوكل المديون خادم الدائن بقبض الزكاة ثم بقضاء دينه، فبقبض الوكيل صار ملكا للموكل، ولا يسلم المال للوكيل إلا في غيبة المديون لاحتمال أن يعزله عن وكالة قضاء دينه حال القبض قبل الدفع. مجلة الأحكام العدلية (1 / 128): (المادة 681) يجوز عقد الحوالة بين المحال له والمحال عليه فقط , مثلا لو قال شخص لآخر: خذ عليك حوالة ديني البالغ كذا قرشا عند فلان , وقال ذلك الشخص " قبلت " , أو قال له: أقبل الدين الذي لك عند فلان بكذا قرشا حوالة علي , وقبل الشخص المذكور تكون الحوالة صحيحة حتى لو ندم المحال عليه بعد ذلك لا تفید ندامته .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب