021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایہ کے مکان پرکرایہ دار کی تعمیر کا حکم
62076اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

زید نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد مالک مکان کی اجازت سے، مکان کی چھت پر ایک کمرہ تعمیر کیا۔اب دس سال بعد مالک مکان، گھر خالی کرانا چاہتا ہےتو زید کہتا ہے کہ میں نے اپنے پیسہ سے کمرہ تعمیر کرایا ہے۔ اس کمرے پر جتنا خرچہ ہوا وہ دے دو تو میں گھر خالی کردوں گا۔ اس مسئلہ کا شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا زید کا یہ کہنا درست ہے اور کیا شرعی اعتبار سے مالک مکان کو کمرہ کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے؟ بینوا توجروا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں زید پر لازم ہے کہ وہ گھر اپنی سابقہ حالت پر مالک مکان کو واپس کرےاور اپنےکمرےکوتوڑکراس کا ملبہ لے جائے۔زید کو مالک مکان سے کمرے کی تعمیر کا خرچہ لینے کا کوئی حق نہیں۔ البتہ مالک مکان کو یہ حق ہے کہ اگر کمرے کے گرانے سے گھر کو نقصان پہنچتا ہوتو وہ زید کی رضامندی کے بغیر،زید کو کمرے کے ملبہ کی قیمت دے کرکمرے کا مالک بن جائے۔اور اگر کمرہ گرانےسے گھر کوکوئی نقصان نہیں ہوتا تو پھر زید کی رضامندی سے ملبہ کی قیمت کے عوض کمرے کا مالک بن سکتا ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (4 / 523): وسئل عن مستأجر أحدث في المستأجر بناء أو غرسا ثم انقضت مدة الإجارة هل يؤمر برفع ذلك قال يؤمر برفع ذلك قلت قيمته أو كثرت إن لم يأخذ المالك بالقيمة قيل فإن كان فعل بإذن المالك قال، وإن كان فعل بإذنه قال وذكر في الشرب أن من يرضى بإجراء غيره الماء في أرضه أو بمروره في أرضه فأطلق له ذلك ثم بدا له أن يمنع من ذلك يكون له المنع لأنه غير لازم. كذا في النسفي. مجلة الأحكام العدلية (1 / 100): (المادة 530) التعميرات التي أنشأها المستأجر بإذن الآجر إن كانت عائدة لإصلاح المأجور وصيانته عن تطرق الخلل كتنظيم الكرميد (أي القرميد وهو نوع من الآجر يوضع على السطوح لحفظه من المطر) فالمستأجر يأخذ مصروفات هذه التعميرات من الآجر وإن لم يجر بينهما شرط على أخذه وإن كانت عائدة لمنافع المستأجر فقط كتعمير المطابخ فليس للمستأجر أخذ مصروفاتها ما لم يذكر شرط أخذها بينهما , (المادة 531) لو أحدث المستأجر بناء في العقار المأجور أو غرس شجرة فالآجر مخير عند انقضاء مدة الإجارة إن شاء قلع البناء أو الشجرة وإن شاء أبقى ذلك وأعطى قيمته كثيرة كانت أم قليلة. الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 234): قال: "ويجوز أن يستأجر الساحة؛ ليبني فيها أو؛ ليغرس فيها نخلا أو شجرا"؛ لأنها منفعة تقصد بالأراضي "ثم إذا انقضت مدة الإجارة لزمه أن يقلع البناء والغرس ويسلمها إليه فارغة"؛ لأنه لا نهاية لهما وفي إبقائهما إضرارا بصاحب الأرض۔۔۔قال: "إلا أن يختار صاحب الأرض أن يغرم له قيمة ذلك مقلوعا ويتملكه فله ذلك" وهذا برضا صاحب الغرس والشجر، إلا أن تنقص الأرض بقلعهما فحينئذ يتملكهما بغير رضاه. قال: "أو يرضى بتركه على حاله فيكون البناء لهذا والأرض لهذا"؛ لأن الحق له فله أن لا يستوفيه۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب