03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کی وارنٹی کا حکم
63157خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال:آج کل یہ رواج چل پڑا ہے کہ کمپنیاں اپنی الیکٹرونک اشیاء پر وارنٹی دیتی ہیں کہ جب کوئی خریدار کمپنی کی کوئی چیز خریدتا ہے تو کمپنی اس کو ایک سال کی وارنٹی دیتی ہے،جس کے تحت کمپنی اس بات کی ذمہ داری لیتی ہے کہ اگر سال کے درمیان وہ چیز خراب ہوگئی تو کمپنی اس کو فری میں مرمت کر کے دے گی۔ تو کیا اس طرح وارنٹی دینا شرعاً درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدو فروخت کے معاملہ میں ایسی اضافی شرط لگانا کہ جس میں خریدار یا فروخت کنندہ کا فائدہ ہو اور وہ شرط متعارف بھی نہ ہو تو ایسی شرط جائز نہیں۔ البتہ جو شرط متعارف ہوچکی ہو وہ شرط لگائی جا سکتی ہے۔ چونکہ کمپنی کی طرف سے اپنی مصنوعات پر دی گئی وارنٹی کی شرط کا آج کل عرف ہے۔ اس لیے ایسی شرط لگانا جائز ہے۔
حوالہ جات
البناية شرح الهداية (8 / 182): (إلا أن يكون متعارفا) ش: هذا استثناء من قوله يفسده، أي إلا أن يكون الشرط متعارفا بين الناس، كما لو اشترى نعلا أو شراكين بشرط أن يحدده البائع فلا يفسد به البيع م: (لأن العرف قاض على القياس) ش: لأن الثابت بالعرف ثابت بدليل شرعي، وهو قوله - عليه الصلاة والسلام -: «ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن» أو ثابت بالإجماع، فيكون العرف راجحا على القياس إما بالنص أو بالإجماع ولأن التورع من العادة الظاهرة حرج بين، والحرج مدفوع الكل. العناية شرح الهداية (6 / 442): وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا، أو؛ لأنه يقع بسببه المنازعة فيعرى العقد عن مقصوده إلا أن يكون متعارفا۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب