میرا ایک دوست ہے، جس سےمیری کافی بے تکلفی بھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی دعوت بھی کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اسے قرض دیا ہے۔ اب وہ میری دعوت کرنا چاہتاہے۔ میں نے سنا ہےکہ جس کو قرض دیاجائے اس کی دعوت قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس وجہ سے مجھے دعوت قبول کرنے میں کچھ تردد ہے۔ اگر میں دعوت قبول نہ کروں تو اس کے ناراض ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ کیا میں اس کی دعوت قبول کرسکتاہوں؟
برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب ارسال فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جس کو قرض دیا ہے،وہ چونکہ آپ کا بےتکلف دوست ہے، لہذا اس کی دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آپ نے جو بات سنی ہے کہ مقروض کی دعوت قبول نہیں کرنی چاہیے، یہ حکم اس وقت ہے جب آپ کو معلوم ہوکہ قرض لینے والا،صرف اس وجہ سے دعوت کررہا ہے کہ آپ نے اسے قرض دیاہے۔ اگر یہ بات معلوم نہ تو پھر دعوت قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (5 / 342):
قال محمد - رحمه الله تعالى - لا بأس بأن يجيب دعوة رجل له عليه دين قال شيخ الإسلام هذا جواب الحكم، فأما الأفضل أن يتورع عن الإجابة إذا علم أنه لأجل الدين أو أشكل عليه الحال