021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تاکیداً دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق کے الفاظ کا حکم
63827 طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو فون پر کہا ہے کہ میں نے آپ کو طلاق دے دی ہےاور میں تمہیں نہیں رکھتا اور سمجھ لو کہ تم فارغ ہو۔ جبکہ مذکورہ آدمی نے آخری دو جملوں میں اول جملہ کی تفصیل و وضاحت کی ہے۔ گزارش ہے کہ شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں اس شخص کے اپنی بیوی کو یہ کہنے سے کہ "میں نے آپ کو طلاق دے دی ہے" ، ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی۔ لیکن چونکہ اس شخص نے اس کے بعد طلاق کے کنائی الفاظ، میں تمہیں نہیں رکھتا، استعمال کیے ہیں، تو اگر ان الفاظ سے اس کی نیت دوسری طلاق کی نہیں ہے، جیسا کہ سوال میں ذکر ہے، تو اس صورت میں پہلی طلاقِ رجعی بائن بن گئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران یہ شخص رجوع نہیں کرسکتا، ہاں عدت کے اندر یا عدت گزرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرسکتے ہیں۔ اگر اس شخص کی مراد آخری دو جملوں سے اول جملہ کی تفصیل و وضاحت نہ تھی بلکہ اس نےان جملوں سے الگ طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس صورت میں اس کی بیوی کو دو بائن طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 497) إذا طلق امرأته تطليقة، ثم قال بعد ذلك: زن برمن حرام رست، يُسألُ الزوج: عنيت بقولك: زن فرض حرام است الحرمة بتلك التطليقة أو هذا الكلام، إن قال: عنيت بتلك التطليقة، فقد جعل الطلاق الرجعي بائناً، فلا تقع تطليقة أُخرى. وإن قال هذا الكلام مثلاً، فهو طلاق آخر ثاني.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب