021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خواتین کےلیے شرعی پردے کےمختلف درجات
71640معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

عورت کے لیے کم سے کم پردہ کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

احكام الحجاب للمفتی شفیع رح(ص: 66)

فقہ کی کتابوں میں پردے کی تین درجات ذکر کیے گئےہیں :

پہلادرجہ:قرآن وحدیث کی رو سے عورتوں کے لئے اصل حکم یہ ہے کہ ان کا وجود اور انکی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور اور چھپی ہوئی ہو، جس کا تقاضا یہ ہے کہ حتی الامکان عورتیں گھروں کی چاردیواری اور معلق پردوں میں رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکليں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا  ارشاد ہے: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (الآیة)۔

دوسرادرجہ:ليکن چونکہ عورتوں کوبھي ايسي ناگزير ضرورتيں پيش آتي ہيں جوگھروں سے باہرنکلے بغيرپوري نہيں ہوسکتي ہيں،اس لئے شريعت نے پردے کاايک دوسرادرجہ يہ مقرر کيا کہ عورتيں جب اپني ضرورت کےلئے باہرجائيں تو برقع يالمبي چادروغيرہ سے اپنے پورے بدن کوسرسےپاؤں تک چھپاکرنکليں،راستہ ديکھنے کے لئے چادرميں سے صرف ايک آنکھ کھوليں،البتہ اس صورت کواختيار کرکے باہرنکلنےميں کچھ شرائط کي پابندي بھي ضروري ہيں جو احاديث صحيحہ سے ثابت ہيں،مثلا عورت نے مہکنے والي خوشبو نہ لگائي ہوئي ہو، بجنے والاکوئي زيور نہ پہنا ہو، راستے کے کنارے پرچلے،مردوں کے ہجوم ميں داخل نہ ہو،سفرکرناہوتومحرم ساتھ ہووغيرہ۔

 پردے کا ایک تیسر ا درجہ بھی ہے,جس میں چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی تمام بدن کو چھپایا جاتا ہے ،جمہور فقہاءکرامؒ کے نزدیک چہرہ کھلا رکھنا بھی پردہ کے حکم کی خلاف ورزی اور گناہ ہے،البتہ اگر فتنہ  کا ڈرہو تو عورتوں کےلیےاپنے پورے بدن کے ساتھ چہرے اور ہتھیلیوں کوچھپانا بالاتفاق ضروری ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔

البتہ چند صورتوں میں گنجائش ہے:اول یہ کہ  چہرہ کھولنے کی ایسی ضرورت ہو کہ ڈھانکنے میں نقصان کا اندیشہ ہو، مثلاً بھیڑ میں چلنے کے دوران، یا گواہی وغیرہ دینے کے وقت،نیز  کسب اور عمل کے وقت بغیرارادہ  کےچہرہ کھل جاتا ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے،اور اس طرح بوڑھی عورت کے حق میں  بھی اس حکم میں کچھ نرمی ہے۔

حوالہ جات
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 370)
 (فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة
"قوله فإن خاف الشهوة قدمنا حدها أول الفصل قوله مقيد بعدم الشهوة قال في التاترخانية وفي شرح الكرخي النظر إلى وجه الأجنبية الحرة ليس بحرام ولكنه يكره لغير حاجة له ظاهره الكراهة ولو بلا شهوة قوله وإلا فحرام أي إن كان عن شهوة حرم قوله وأما في بكذا فمنع من الشابة لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة كما قدمه في شروط الصلاة "
 الهداية شرح البداية (1/ 65)
قال ولا يجوز أن ينظر الرجل إلى الأجنبية إلا إلى وجهها وكفيها لقوله تعالى ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها قال علي وابن عباس رضي الله عنهما منها ظهر منه الكحل والخاتم والمراد موضعهما
وهو الوجه والكف كما أن المراد بالزينة المذكورة موضعها ولأن في إبداء الوجه والكف ضرورة لحاجتها إلى المعاملة مع الرجال أخذا وإعطاء وغير ذلك وهذا تنصيص على أنه لا يباح النظر إلى قدمها وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه يباح لأن فيه بعض الضرورة وعن أبي يوسف رحمه الله أنه يباح النظرإلى ذراعيها أيضا لأنه قد يبدو منها عادة قال فإن كان لا يأمن الشهوة لا ينظر إلى وجهها إلا لحاجة لقوله عليه الصلاة والسلام من نظر إلى محاسن امرأة أجنبية عن شهوة صب في عينيه الآنك يوم القيامة فإن خاف الشهوة لم ينظر۔

 وقاراحمد

 دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

 ۲۶جمادی الثانی ۱۴۴۲

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب