021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھتیجے اور بھتیجیوں کا میراث میں حصہ
67815میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص مسمی امان اللہ خان ولد عبد الوھاب خان کا انتقال ہوا ۔مرحوم بے اولاد تھے۔ان کی اہلیہ کا انتقال  ان سے پہلے ان کی زندگی میں ہوچکا تھا۔مرحوم  کے ماں باپ اور بہن  بھائیوں کا انتقال بھی ان کی زندگی میں ہوچکا تھا ۔ مرحوم کے کل 11 بھتیجے اور 3 بھتیجیاں تھیں۔جن میں سے تین بھتیجوں اور ایک بھتیجی کا انتقال مرحوم  کی زندگی  میں ہوگیا تھا ۔ایک مرحوم بھتیجے کی اولاد بھی ہے یعنی تین بیٹے اور ایک بیٹی ۔اب سوا ل یہ ہے کہ مذکورہ بالا وارثوں میں شریعت کے مطابق میراث تقسیم کیسے ہوگی۔

2۔مرحوم کی زندگی میں انتقال  کرجانے والے بھتیجوں  اور بھتیجی  کامیراث  میں حصہ  ہوگا؟

3۔ایک مرحوم بھتیجے (سمیع) کی اولاد ہے۔سمیع کا انتقال  اپنے چچا کی زندگی میں ہوگیا تھا تو کیا سمیع کی اولاد کو امان اللہ خان  کی میراث میں حصہ ملے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مرحوم نے جوکچھ نقدی ،زیور، جائیداد یا چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہواس میں سے پہلے مرحوم کی تجہیزوتکفین کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،پھر  اگر مرحوم کے ذمے کچھ قرض ہوتو وہ ادا کیا جائےاور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کسی غیر وارث کے حق میں کی ہو تو  ایک تہائی تک اس کے مطابق عمل کیاجائے۔اس کے بعد جو ترکہ بچے اسے  صرف مرحوم کے زندہ بھتیجوں میں حسب ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کیاجائے۔واضح رہے کہ بھتیجوں کی موجودگی میں بھتیجیاں وارث نہیں بنیں گی۔

وارث

حصہ

موجودہ مال کا فیصدی حصہ

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

بھتیجا

عصبہ

12.5%

کل تعداد:8

کل حصص:8

کل فیصد:100%

2۔مرحوم کی زندگی میں انتقال  کرجانے والے بھتیجوں  اور بھتیجی  کامیراث  میں حصہ   نہیں ہوگا۔

3۔ نیز سمیع کی اولاد کو بھی  امان اللہ خان  کی میراث میں  سے کوئی حصہ نہیں  ملے گا۔

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 238)
قال - رحمه الله - (ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب) وإنما قدموا على الأعمام لأن الله تعالى جعل الإرث في الكلالة للإخوة عند عدم الولد والوالد بقوله تعالى {وهو يرثها إن لم يكن لها ولد} [النساء: 176] فعلم بذلك أنهم مقدمون على الأعمام،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 776)
وأشار إلى ما في السراجية وشرحها من أن من لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة لا تصير عصبة بأخيها كالعم والعمة إذا كانا لأب وأم أو لأب وكان المال كله للعم دون العمة وكذا في ابن العم مع بنت العم وفي ابن الأخ مع بنت الأخ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 774)
(وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب۔
البحر الرائق (8/ 578)
لا يرث ذوو الأرحام مع وجود ذوي فرض أو عصبة إلا إذا كان صاحب الفرض أحد الزوجين فيرثون معه لعدم الرد عليه لأن العصبة أولى۔
اللباب في شرح الكتاب (ص: 423)
(وإذا غرق جماعة) أو احترقوا (أو سقط عليهم حائط فلم يعلم من مات منهم أولا فمال كل واحد منهم) يكون (للأحياء من ورثته) ولا يرث بعضهم من بعض، لأنه لما لم يعلم حالهم جعلوا كأنهم ماتوا معاً، وإذا ماتوا معاً لا يرث بعضهم من بعض؛ لاشتراط تحقق حياة الوارث بعد موت المورث.

  طلحہ بن قاسم   

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

20/04/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب