021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیاکوروناوباکی وجہ سے جمعہ میں پانچ افراد کی تخصیص سےاذن عام کی شرط مفقودہوجاتی ہے؟
69486نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کوروناوباکی وجہ سےمسجد میں 5 سے زیادہ افراد کو آنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے جمعہ کی ایک بنیادی شرط"اذنِ عام" مفقود ہے تو کیا مسجد والوں کا جمعہ ادا ہوگا یا نہیں؟اگر یہ تاویل کی جائے کہ حکمِ حاکم کی وجہ سے "اذنِ عام" کی شرط ساقط ہوگئی ہے تو اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے امام کے قول پر فیصلہ کیا تو کیا یہ تلفیقِ ممنوع کے زمرہ میں تو نہیں آئے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجدوالوں کاجمعہ اداء ہوجائےگا،کیونکہ حاکم کی طرف سےجمعہ کی اقامت کی اجازت ہے،اس لیےجولوگ مسجدمیں جمعہ پڑھیں گےان کاجمعہ اداء ہوجائےگا،رہی بات کہ اذن عام کی شرط مفقودہےتواس کاجواب یہ ہےکہ اذنِ عام کےفقہاء نےدومطلب بیان کیےہیں: ایک مطلب تویہ ہےکہ ہروہ شخص جس پرجمعہ فرض ہو،اسے مقام جمعہ پرآنےکی اجازت ہو،ہرشخص بلاروک ٹوک وہاں جاسکے،اگرانتظامی طورپریاکسی دوسرےمقاصدسےبھی کوکسی وہاں جانےسےروکاجائےتویہ اذن عام میں مخل ہوگا،اوراس طرح کی بندش سےبھی اذن عام کی شرط نہ پائےجانےکی وجہ سےوہاں جمعہ صحیح نہ ہوگاکمافی الشامیہ "حاشية رد المحتار" 2 / 164: قوله: (الاذن العام) أي أن يأذن للناس إذنا عاما بأن لا يمنع أحدا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلي فيه، وهذا مراد من فسر الاذن العام بالاشتهار۔۔۔۔ دوسرامطلب یہ ہےکہ اذنِ عام کےتحقق کےلیےیہ کافی ہےکہ جس بڑی جگہ اوربڑی آبادی میں جمعہ ہورہاہو،اس آبادی کےلوگوں کووہاں آنےکی اجازت ہو،خواہ باہرکےلوگوں کودفاعی،حفاظتی یاانتظامی وجوہ سےوہاں آنےکی اجازت نہ ہوجیساکہ بعض دوسری کتب فقہ میں اس کی تفصیل موجودہے۔ "رسائل الارکان/ ١١٥ بحواله فقهى مقالات ٣٤/٤: وفی فتح القدیر: إن أغلق باب المدينة لم يجز وفيه تأمل فإنه لا ينافى الاِ ذن العام لمن فى البلد وأمامن فى خارج البلدفالظاهرانهم لا يجيؤون لاِقامة الجمعة بل يجيؤون للشروالفساد۔ "الدر المختار للحصفكي" 2 / 164:(ا لإذن العام) من الامام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي.فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة، لان الإذن العام مقرر لاهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الانهر معزيا لشرح عيون المذاهب۔ "مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر" 2 / 32:( والإذن العام ) وهو أن يفتح أبواب الجامع للواردين قالوا : السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمه في داره فإن فتح الباب وأذن إذنا عاما جازت الصلاة ولكن يكره وإلا لم يجز كما في الكافي وما يقع في بعض القلاع من غلق أبوابه خوفا من الأعداء أو كانت له عادة قديمة عند حضور الوقت فلا بأس به لأن إذن العام مقرر لأهله ولكن لو لم يكن لكان أحسن كما في شرح عيون المذاهب .۔ وفي البحر والمنح خلافه لكن ما قررناه أولى لأن الإذن العام يحصل بفتح باب الجامع وعدم المنع ولا مدخل في غلق باب القلعة وفتحه ولأن غلق بابها لمنع العدو لا لمنع غيره تدبر وعند الأئمة الثلاثة لا يشترط الإذن العام۔ مذکورہ دونوں تعریفوں میں سےبعض نےپہلی تعریف کوترجیح دی ہےاوربعض نےدوسری تعریف کو،اسی دوسری تعریف کےمطابق چھاونی ،جیل وغیرہ میں جمعہ کی اجازت دی جاتی ہےجیساکہ احسن الفتاوی میں حضرت مفتی رشیدصاحب رحمہ اللہ تعالی نےجیل میں جمعہ کےبارےمیں لکھاہےکہ اگرحکومت کی طرف سےوہاں جمعہ کی اجازت ہوتووہاں جمعہ جائزہوگا،(احسن الفتاوی 4/122)،یعنی جولوگ پہلےسےجیل،چھاونی وغیرہ میں موجودہیں،ان کےلیے اذنِ عام ہےاگرچہ باہروالوں کےلیے اذنِ عام کی شرط مفقودہے۔ صورت مسئولہ میں قلعہ چھاؤنی وغیرہ جن بعض جزئیات میں فقہاء واہل افتاء نےجمعہ کےصحیح ہونےکی گنجائش ذکرفرمائی ہے،اس گنجائش کی روشنی میں اگرکسی جگہ کسی مصلحت کی وجہ سےکچھ لوگوں کوآنےکی اجازت نہ ہوتویہ اذنِ عام کےمنافی نہیں۔ “حاشیۃ الطحطاوی علی الدر1344/: أمااذاکان لمنع عدویخشی دخولہ وھوفی الصلاۃ فالظاھر وجوب الغلق حلبی۔ "حاشية رد المحتار "2 / 165: قوله: (لم تنعقد) يحمل على ما إذا منع الناس فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر ط۔ "امدادالفتاوی" 1/ 481: اذنِ عام ہونابھی من جملہ شرائط صحت جمعہ ہے،جس کےمعنی یہ ہیں کہ خودنمازپڑھنےوالےکوروکناوہاں مقصودنہ ہو،باقی اگرروک ٹوک کسی اورضرورت سےہووہ اذنِ عام میں مخل نہیں ہے۔ "امدادالاحکام" 1/ 751: "اگرچھاونی یاقلعہ میں جمعہ اداکیاجائےتوجائزہےگوچھاؤنی اورقعلےمیں دوسرےلوگ نہ آسکتےہوں،کیونکہ مقصودنمازسےروکنانہیں ہے،بلکہ انتظام مقصود ہے" اس لیےاولاتوموجودہ صورت حال میں بیماری کےپھیلاؤ کوروکنےکےلیےحکومت مسلمہ نےنمازیوں کی جوتحدیدکی ہےاس سے اذنِ عام ختم نہیں ہوتا۔ اوراگراس کوتسلیم کربھی لیاجائےتوخوداحناف کےہاں ظاہرالروایہ کےمطابق صحت جمعہ کےلیے اذنِ عام کی شرط نہیں ہے،اگرچہ متاخرین کی ترجیح کےمطابق عام حالات میں نوادرالروایہ کےمطابق اذنِ عام کوشرط قراردیاجاتاہے،لیکن موجودہ صورت حال میں جب اس کوحکومتی فیصلہ کی تائیدحاصل ہوگئی تواب اسی(ظاہرالروایہ)روایت کوترجیح ہوگی اورمساجدمیں جمعہ کوصحیح قراردیاجائےگا۔ خلاصہ یہ کہ موجودہ مسئلہ میں ہم نےائمہ ثلاثہ کاقول(کہ جمعہ کےلیےاذن عام شر ط نہیں )کونہیں لیا،بلکہ خوداحناف کےظاہرالروایہ کےقول کولیاہےاس لیے تلفیق نہیں پائی جاتی۔
حوالہ جات
"حاشية رد المحتار"" 2 / 164:قوله: (الاذن العام) أي أن يأذن للناس إذنا عاما بأن لا يمنع أحدا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلي فيه، وهذا مراد من فسر الاذن العام بالاشتهار، وكذا في البرجندي إسماعيل، وإنما كان هذا شرطا لان الله تعالى شرع النداء لصلاة الجمعة بقوله: * (فاسعوا إلى ذكر الله) * (الجمعة: 9) والنداء للاشتهار، وكذا تسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها، فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور تحقيقا لمعنى الاسم.بدائع. واعلم أن هذا الشرط لم يذكر في ظاهر الرواية، ولذا لم يذكره في الهداية بل هو مذكور في النوادر، ومشى عليه في الكنز و الوقاية والنقاية والملتقى وكثير من المعتبرات۔ قوله: (من الامام)قيد به بالنظر إلى المثال الآتي، وإلا فالمراد الاذن من مقيمها لما في البرجندي من أنه لو أغلق جماعة باب الجامع وصلوا فيه الجمعة لا تجوز.إسماعيل.قوله: (وهو يحصل الخ) أشار به إلى أنه لا يشترط صريح الاذن ط.قوله: (للواردين) أي من المكلفين بها فلا يضر منع نحو النساء لخوف الفتنة ط.قوله: (لان الاذن العام مقرر لاهله) أي لاهل القلعة لانها في معنى الحصن والاحسن عود الضمير إلى المصر المفهوم من المقام، لانه لا يكفي الاذن لاهل الحصن فقط، بل الشرط الاذن للجماعات كلها كما مر عن البدائع.قوله: (وغلقه لمنع العدو الخ) أي أن الاذن هنا موجود قبل غلق البا ب لكل من أراد الصلاة، والذي يضر إنما هو منع المصلين لا منع العدو.قوله: (لكان أحسن) لانه أبعد عن الشبهة، لان الظاهر اشتراط الاذن وقت الصلاة لا قبلها لان النداء للاشتهار كما مر، وهم يغلقون الباب وقت النداء أو قبيله، فمن سمع النداء وأراد الذهاب إليها لا يمكنه الدخول، فالمنع حال الصلاة متحقق، ولذا استظهر الشيخ إسماعيل عدم الصحة ثم رأيت مثله في نهج الحياة معزيا إلى رسالة العلامة عبد البر بن الشحنة، والله أعلم۔ قوله: (لم تنعقد) يحمل على ما إذا منع الناس فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر ط۔ "رد المحتار " 6 / 62: ومثله ما لو منع السلطان أهل مصر أن يجمعوا إضرارا وتعنتا فلهم أن يجمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة أما إذا أراد أن يخرج ذلك المصر من أن يكون مصرا لسبب من الأسباب فلا كما في البحر ملخصا عن الخلاصة ۔ خلاصہ یہ کہ موجودہ مسئلہ میں ہم نےائمہ ثلاثہ کاقول(کہ جمعہ کےلیےاذن عام شر ط نہیں )کونہیں لیا،بلکہ خوداحناف کےظاہرالروایہ کےقول کولیاہےاس لیے تلفیق نہیں پائی جاتی۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب