ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ آج کل کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر ہر دو بندوں کو بطورِ احتیاطی تدبیر آپس میں 3 فٹ کا فاصلہ رکھنا چاہیے۔ حکومت نے بھی مساجد میں نمازوں کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ ہر دو نمازیوں کے درمیان 3 فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز کے دوران نمازیوں کا آپس میں فاصلہ رکھنا درست ہوگا یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ احادیث میں باجماعت نماز کے دوران صفوں میں مل مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں خالی جگہ نہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اسالیب میں اس کی تاکید فرمائی ہے، اس کی مخالفت کرنا اور بیچ میں فاصلہ چھوڑنا سنتِ متوارثہ کے خلاف ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اعلاء السنن جلد نمبر 3 میں علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے "سنیة تسویة الصفوف و رصها" عنوان کے تحت صفوں میں مل مل کر کھڑے ہونے کو سنتِ مؤکدہ اور اس کی مخالفت کو مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی امداد الفتاوی اور امداد الاحکام میں بلاضرورت اصطفاف بین السواری کو اسی وجہ سے مکروہ قرار دیا ہے، کما فی امداد الاحکام:1/523، و امداد الفتاوی:1/342۔ اسی طرح اگلی صف میں خالی جگہ چھوڑکر پچھلی صف میں کھڑے ہونے کو علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکروہِ تحریمی فرمایا ہے۔
تاہم یہ حکم عمومی حالات کا ہے جب کوئی عذر نہ ہو۔ جہاں تک صورتِ مسئولہ کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صریح جزئیہ تو نہیں ملا، البتہ قواعدِ فقہیہ کی روشنی میں اس کا حکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماہر اور متدین ڈاکٹر حضرات دو نمازیوں کے درمیان جتنے فاصلے کو لازمی قرار دیتے ہوں، اس خاص صورت میں اتنا فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے، کیونکہ:-
(1)۔۔۔ بالکلیہ مسجد کی جماعت چھوڑنے کے بجائے اس کی ایک صفت (مل مل کر کھڑے ہونے) کو چھوڑدینا "اَہوَن" یعنی کم درجے کی برائی ہے۔
(2)۔۔۔ مسلمانوں کا اجتماعی طور پر مسجد کی جماعت سے ایک عرصہ کے لیے کٹنے سے جو خرابیاں پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، اگر ان پر نظر ڈالی جائے تو بھی بالکلیہ جماعت چھوڑنے کے بجائے اس کی ایک صفت کو عارضی طور پر ترک کرنا اہون معلوم ہوتا ہے۔
(3)۔۔۔ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے خلاصۃ الفتاوی کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت کے لیے آنے کی صورت میں کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکتا ہو، اور گھر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتا ہو تو ایک قول کے مطابق اس کے لیے حکم یہ ہے کہ جماعت میں شامل ہو اور بیٹھ کر نماز پڑھے ، اس قول کی تصحیح بھی کی گئی ہے۔ البتہ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ جماعت میں شامل ہونے کے بجائے گھر میں قیام کے ساتھ نماز پڑھے گا، اس دوسرے قول کو "اظہر" قرار دیا گیا ہے۔
بہر صورت جب ایک قول (جس کی فی نفسہ تصحیح بھی کی گئی ہے) کے مطابق جماعت میں شامل ہونے کے لیے نماز میں قیام کے بجائے قعود کی گنجائش دی گئی ہے تو مسجد کی جماعت حاصل کرنے کے لیے اس کی ایک سنت کو عارضی طور پر مجبوری کی وجہ سے چھوڑنے کی بدرجہ اَولیٰ گنجائش ہونی چاہیے۔
پھر چونکہ صورتِ مسئولہ میں جماعت کی یہ صفت اور سنت بھی ایک عذر کی وجہ سے چھوڑی جارہی ہے، اس لیے اس کو چھوڑنے کی وجہ سے کراہت بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت میں عذر کی وجہ سے کراہت پیدا نہ ہونے کی نظیر قیام الإمام فی المحراب، انفراد الإمام أو المأموم علی الدکان والے تین مسائل ہوسکتے ہیں، جو اصولاً تو مکروہ ہیں، لیکن بوقتِ ضرورت فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ان کی اجازت دی ہے، اور کراہت کی نفی کی ہے؛ اس لیے ان مسائل سے بھی فی الجملہ استیناس کیا جاسکتا ہے۔
تاہم یہ فاصلہ کم سے کم ہونا چاہیے؛ کیونکہ ضرورت اور حاجت کی وجہ سے ثابت ہونے والے احکام کی اجازت بقدرِ ضرورت اور بقدرِ حاجت ہی ہوتی ہے۔ کما فی المجلة، المادة 22: الضرورات تقدر بقدرها، والمادة 32: الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة أو خاصة .
ملاحظة- چونکہ یہ اجازت مذکورہ عذر کے حقیقی ہونے اور رہنے کے ساتھ مشروط ہے، اس لیے مسلمانوں پر بحیثیتِ مجموعی وقتا فوقتا اس عذر کے رہنے یا ختم ہونے کی تحقیق لازم ہے، تاکہ عذر ختم ہونے یا اس کی شدت میں کمی آنے کی صورت میں اُس کے مطابق عمل کیا جاسکے؛ لأن ما جاز لعذرٍ بطل بزواله، و إذا زال المانعُ عاد الممنوعُ (المجلۃ، رقم المادة:23 و 24).
حوالہ جات
سنن أبى داود (1/ 249):
عن جابر بن سمرة قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- : « ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربهم جل وعز ». قلنا: وكيف تصف الملائكة عند ربهم؟ قال: « يتمون الصفوف المقدمة ويتراصون فى الصف ».
عن أبى القاسم الجدلى قال: سمعت النعمان بن بشير يقول: أقبل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على الناس بوجهه فقال « أقيموا صفوفكم ». ثلاثا « والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم ». قال فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه.
عن البراء بن عازب قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يتخلل الصف من ناحية إلى ناحية يمسح صدورنا ومناكبنا ويقول « لا تختلفوا فتختلف قلوبكم ». وكان يقول « إن الله وملائكته يصلون على الصفوف الأول ».
حدثنا عيسى بن إبراهيم الغافقى حدثنا ابن وهب ح وحدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا الليث - وحديث ابن وهب أتم - عن معاوية بن صالح عن أبى الزاهرية عن كثير بن مرة عن عبد الله بن عمر - قال قتيبة عن أبى الزاهرية عن أبى شجرة لم يذكر ابن عمر - أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: « أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدى إخوانكم ». لم يقل عيسى « بأيدى إخوانكم ». « ولا تذروا فرجات للشيطان ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله ».
عن أنس بن مالك عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: « رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالأعناق، فوالذی نفسی بیده إنی لأری الشیطان یدخل من خلل الصف
كأنها الحذف ».
بذل المجهود (4/328):
( و یتراصون فی الصف) قال فی القاموس: "رصه" ألزق بعضه ببعض و ضم، أی یضمون بعضهم ببعض حتی لا یبقی بینهم فرج، …….. و تضامهم یستلزم تسویة صفوفهم.
إعلاء السنن (3/1439-1435 ):
و قد مال البخاری رحمه الله إلی وجوب التسویة أیضًا وخالف الإجماع فترجم فی صحیحه "باب إثم من لم یتم الصفوف"، وأورد فیه حدیث أنس بن مالك أنه قدم المدینة، فقیل له: ما أنکرت منذ یوم عهدت رسول الله صلی الله علیه و سلم؟ قال: ما أنکرت شیئا إلا أنکم لاتقیمون
الصفوف.
قال الحافظ: و تعقب بأن الإنکار قد یقع علی ترك السنة، فلایدل ذلك علی حصول الإثم، اه.
قلت: بل فیه ما یدل علی عدم الوجوب والإثم؛ لأن أنسًا لم ینکر علیهم عدم إقامة الصف ابتداء، بل أظهر الإنکار بعد سؤالهم عنه بقولهم: " ما أنکرت منذ یوم عهدت رسول الله صلی الله علیه و سلم؟"، و لو کان تسویة الصف واجبة لأنکر علیهم ابتداء ولم یمهلهم حتی یسألوا
عنه فیجیبهم بالإنکار، فهذا إنما هو شأن السنن والمستحبات دون الفرائض والوجبات، و أیضا
فیبعد أن یتساهل المسلمون فی الواجب عن آخرهم فی قرن الصحابة، و قول أنس رضی الله
عنه یدل علی کون التساهل فی إقامة الصف عامًا إذ ذاك، قاله الشیخ.
وفی حاشیة البخاری عن العینی: و هی (أی تسویة الصفوف) سنة الصلاة عند أبی حنیفة والشافعی ومالك.
قلت: والظاهر من کلام أصحابنا أنها سنة مؤکدة؛ لإطلاقهم الکراهة علی ضدها، والکراهة المطلقة هی التحریمیة، وقد وقع التصریح بها فی کلام بعضم کما سیأتی.
قوله: "عن أنس إلخ"، قلت: فیه الأمر بالرص والمحاذاة بالأعناق، والمراد بها التسویة، وقد علمت کون التسویة سنة عندنا، وکذلك الرص، صرح به المحقق فی الفتح حیث قال: و لنسق نبذة من سنن الصف تکمیلا، فمن سننه التراص فیه، والمقاربة بین الصف والصف والاستواء فیه اه. قال بعض الناس: و لم أقف علی رتبة الرص فی المذهب اه.
قلت: ووجهه قلة مراجعته کتب القوم من دعوی سعة النظر، والأمر فی قوله صلی الله علیه وسلم "تراصوا" لیس للوجوب، بدلیل ما أخرجه مسلم عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول الله صلی الله
وسلم فرآنا حلقا فقال: " مالی أریکم عزین"؟ ثم خرج علینا، فقال: "ألا تصفون کما تصف الملائکة عند ربها؟ " فقلنا: یا رسول الله ! و کیف تصف الملائکة عند ربها؟ قال: یتمون الصفوف الأولی، یتراصون فی الصف اه. من المرقاة، فاکتفی فیه صلی الله علیه وسلم بالترغیب و لم یذکر فی خلافه وعیدا، فیحمل الأمر الوارد فی حدیث المتن علی الحض و الترغیب أیضا دون الوجوب، علی أن الرص من ملحقات تسویة الصف، وقد قام الإجماع علی عدم وجوبها، فکذا ما کان ملحقا بها.
قوله: "عن عبد الله بن عمر الخ" قال بعض الناس: فیه وعید علی قطع الصف، فالوصل یکون
واجبا، اھ
قلت: هذا إنما یتم إذا کان الوعید أخرویا، ویکون المعنی وصله الله به أو یجزیه وقطعه الله عنه
أو عن خواص حضرته بإرجاع المجرور إلی الله تعالیٰ، و لو کان دنیویا والمعنی وصله الله بإخوانه ومطالبه، و قطعه الله عن أصحابه وأحبابه بإرجاع الضمیر المجرور إلی الموصول، ویؤید ذلك ما سیأتی من قوله صلی الله علیه وسلم: "و لاتختلفوا فتختلف قلوبکم"، لم یکن الحدیث نصا فی الوجوب.
و ظاهر المذهب أن وصل الصف بمعنی إکمال الأول فالأول سنة مؤکدة، و قطعه بمعنی القیام فی صف خلف صف فیه فرجة مکروه، و بالکراهة أیضا صرح الشافعیة کما فی الدر، وعلل الشامی کراهته بأن فیه ترکا لإکمال الصفوف ثم قال: هل الکراهة فیه تنزیهیة أو تحریمیة؟ یرشد إلی الثانی قوله صلی الله علیه وسلم "و من قطعه قطعه الله" اه. وفیه أیضا عن الأشباه: " إذا أدرك الإمام راکعا فشروعه لتحصیل الرکعة فی الصف الأخیر أفضل من وصل الصف اه، أما لو لم یدرك الصف الأخیر فلایقف وحده، بل یمشی إلیه إن کان فیه فرجة و إن فاتته الرکعة کما فی آخر شرح المنیة معللا بأن ترك المکروه أولی من إدراك الفضیلة اه. و هذا یشعر بأن کراهة ترك إکمال الصف أخف من کراهة القیام وحده خلفه، فالظاهر أن إکمال الصف لیس بواجب عندهم، بل هو سنة.
والحدیث حمله بعض العلماء علی الوصل بکمال البر والقطع عنه، قال العزیزی: "من وصل صفا وصله الله" أی زاد فی بره وأدخله فی رحمته، "ومن قطع صفا قطعه الله" أی قطع عنه مزید بره اھ، وقال الحنفی: أی (قطعه) عن کمال بره وإحسانه اھ.
وهذا یشعر بحملهم إیاه علی الترغیب دون الوعید بالقطع عن الله أو عن الخیر رأسا، و عد ابن حجر الهیتمی فی الزواجر قطع الصف وعدم تسویته من الکبائر ثم قال: عد هذین من الکبائر هو قضیة الوعید الشدید علیهما بقوله صلی الله علیه وسلم "من قطع صفا قطعه الله"؛ إذ هو بمعنی لعنه الله أو قریب منه. لکن لم أر أحدا عد ذلك فی الکبائر علی أن قطع الصف أو عدم تسویته عندنا إنما هو مکروه لا حرام فضلا عن کونه کبیرة، ثم ذکر حدیث أبی داود "لایزال قوم یتأخرون من الصف الأول فیؤخرهم الله فی النار، وقال: "وکان الأئمة فهموا من هذه؛ فإنه لیس المراد بها ظاهرها إجماعا أن التغلیظات فی هذا الباب لم یقصد بها ظواهرها، بل الزجر عن خلل الصفوف، وحمل الناس علی إکمالها وتسویتها ما أمکن اھ ملخصا.
وقال الطحطاوی فی حاشیته علی مراقی الفلاح: المراد من قطع الصف كما في المناوي أن يكون فيه فيخرج لغير حاجة أو يأتي إلى صف ويترك بينه وبين من في الصف فرجة. قال: ولا يبعد أن يراد بقطع الصف ما يشمل ما لو صلى في الثاني مثلا مع وجود فرجة في الصف الأول اه.
قلت: والصورة الأولی أشد من الأخریین لما فیها من الإعراض عن القربة بلا داع، وهو حرام یدل علی ذلك حدیث إقبال ثلاثة نفر، فوقف منهم اثنان علی رسول الله صلی الله علیه وسلم، وذهب واحد فقال صلی الله علیه وسلم: "ألا أخبرکم عن النفر الثلاثة؟ أما أحدهم
فآوی إلی الله فآواه الله، وأما الآخر فاستحی فاستحی الله منه، وأما الآخر فأعرض فأعرض
الله عنه" أخرجه البخاری. قال العینی: فیه أن من أعرض عن مجالسة العالم؛ فإن الله یعرض عنه، ومن أعرض عنه فقد تعرض لسخطه اھ.
وقال الحافظ فی الفتح تحت قوله: "فأعرض الله عنه" : أی سخط علیه و هو محمول علی من
ذهب معرضا لا لعذر اھ.
قلت: ولایخفی أن المطلوب فی الصلاة أن یکون المأموم بقرب من الإمام، فمن کان بقربه ثم تأخر عنه بلاوجه شرعی، فهو معرض عن القربة متعرض لسخط الله تعالیٰ، وعلی هذا فالحدیث محمول علی الوعید الأخروی علی ظاهره والوصل المقابل لهذا القطع واجب حتما، والقطع بالمعنیین الأخیرین مکروه والوصل المقابل لهما سنة مؤکدة، کما مر، فافهم.
الدر المختار (1/ 570):
ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامه في صف خلف صف فيه فرجة.
قلت: وبالكراهة أیضا صرح الشافعیة، قال السیوطی فی بسط الکف فی إتمام الصف: وهذا الفعل
مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف، لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص، اهـ .
رد المحتار (1/ 570):
قوله ( كره ) لأن فيه تركا لإكمال الصفوف، والظاهر أنه لو صلى فيه المبلغ في مثل يوم الجمعة لأجل أن يصل صوته إلى أطراف المسجد لا يكره. قوله ( كقيامه في صف الخ ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية؟ ويرشد إلى الثاني قوله عليه الصلاة والسلام "ومن قطعه قطعه الله"، ط.
الدر المختار (1/ 647-645):
( وقيام الإمام في المحراب لا سجوده فيه ) وقدماه خارجه لأن العبرة للقدم ….. ( وانفراد الإمام على الدكان ) للنهي، وقدر الارتفاع بذراع ولا بأس بما دونه، وقيل ما يقع به الامتياز وهو الأوجه، ذكره الكمال وغيره ( وكره عكسه ) في الأصح وهذا كله ( عند عدم العذر ) كجمعة وعيد، فلو قاموا على الرفوف والإمام على الأرض أو في المحراب لضيق المكان لم يكره لو كان معه بعض القوم في الأصح، وبه جرت العادة في جوامع المسلمين، ومن العذر إرادة التعليم أو التبليغ كما بسط في البحر، وقدمنا كراهة القيام في صف خلف صف فيه فرجة للنهي.
رد المحتار (1/ 646):
قوله ( وهذا كله ) أي الكراهة في المسائل الثلاث …… قوله ( كجمعة وعيد ) مثال للعذر وهو على تقدير مضاف أي كزحمة جمعة وعيد. قوله ( فلو قاموا الخ ) تفريع على عدم الكراهة عند العذر في جمعة وعيد. قال في المعراج: وذكر شيخ الإسلام إنما يكره هذا إذا لم يكن من عذر، أما إذا كان فلا يكره كما في الجمعة إذا كان القوم على الرف وبعضهم على الأرض لضيق المكان.
الأشباه والنظائر (ص: 111):
حكم ما إذا تعارض ضرران أو مفسدتان: الرابعة : نشأت من هذه القاعدة قاعدة رابعة وهي : ما
إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا بارتكاب أخفهما……… ومن هذا القبيل ما ذکره
ما ذكره في الخلاصة : أنه لو كان إذا خرج للجماعة لا يقدر على القيام ولو صلى في بيته صلى قائما يخرج إليها ويصلي قاعدا وهو الصحيح. ونقل عن شرح منية المصلي تصحيحا آخر أنه يصلي في بيته قائما وهو الأظهر.