03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ساس،سسر،دیور اور نند کی خدمت کا حکم
69926جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا بہو پر شوہر کے والد اور دیور و نند کی خدمت لازم اور فرض ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و  ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر  یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار وہمدردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس ،سسر اور شوہر کے بہن بھائیوں کی خدمت  اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کے رشتہ دار ہیں،خاص کر شوہر کے والدین، جس طرح وہ اپنے والدین کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے والدین کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ اگر بیوی ساس سسر کی خدمت کرتی ہے تو شوہر کو اس کا احسان مند ہونا چاہیے،لیکن اگر وہ نہیں کرتی تو شوہرکا اسے اپنے والدین،خاص کر بہن بھائیوں  کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کوان کی خدمت پر مجبور کرنا اور اس معاملے میں اس پر زور زبردستی کرنا درست نہیں ہے،(بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے) یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس اور سسر کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس  اور سسرکو اپنے والدین کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

حوالہ جات

....

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب