021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کا اپنے والدین کے علاقے میں گھر کا مطالبہ کرنا
69927جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا شوہر کے گھر والوں سے نہ بننے کی صورت میں بیوی کا علیحدہ گھر کا مطالبہ صحیح ہے یا نہیں؟

علیحدہ گھر کے مطالبے کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کے جنونی غصے اور مار پیٹ نے آٹھویں مہینے کے حمل کا لحاظ بھی نہیں کیا اور اپنے گھر والوں کے کہنے پر بیوی کو مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا،اس بناء پر بیوی کا اپنے والدین کے علاقے میں علیحدہ گھر کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں،جبکہ بیوی کو اپنی اور بچے کی جان کا خطرہ ہے،کیونکہ شوہر کانوں کا کچا ہے،دوسروں کے کہنے پر بیوی کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

علیحدہ رہائش بیوی کا حق ہے اور اس کا انتظام شوہر کے ذمے لازم ہے،تاہم بیوی کو مستقل اور الگ رہائش دینے کے معاملہ میں  شریعت نے شوہر  کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ، اگرشوہرمال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ بیوی کے لیےمستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرسکتاہے تو بیوی کے لیے الگ گھر کا انتظام اس کے ذمے لازم ہوگا۔

اور اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر  دے سکے توپھر اس پر لازم ہے کہ مشترکہ گھر میں اس کے لیے ایک ایسے مستقل  کمرے کا انتظام کرے جس  کا بیت الخلاء، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کو کافی ہوجائے، کسی اور کی اس میں دخل اندازی نہ ہو۔

نیز شوہر اس کا اپنی اور بیوی کی حیثیت کے مطابق جہاں بھی انتظام کردے اس سے بیوی کا حق ادا ہوجائے گا،کسی خاص علاقے مثلا مذکورہ صورت میں بیوی کے والدین کے علاقے میں گھر کا انتظام کرنا شوہر کے ذمے شرعا لازم نہیں ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 599):
"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية".
قال ابن عابدین رحمہﷲ:" (قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/محرم1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب