021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر گواہوں کے کیے گئے نکاح کا حکم
70383نکاح کا بیاننکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں

سوال

ایک لڑکا ا ور لڑکی دونوں تنہائی (ایجاب و قبول کے وقت لڑکا اور لڑکی کے علاوہ کوئی اور شخص موجود نہیں تھا ،نہ گواہ تھے نہ نکاح خواں )میں حق مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرلیں ،تو کیا اس صورت میں ان کا نکاح منعقد ہوا؟  اس میں طے یہ کیا تھا کہ جب تک دونوں کی کہیں اور شادی نہیں ہو جاتی تب تک کے لیے یہ نکاح ہے ۔نیز یہ بھی بتادیں کہ دوسری جگہ شادی کے لیےاس شخص سے خلاصی کی کیا صورت ہوگی؟

                         وضاحت: 1۔سائلہ کے بیان کے مطابق دونوں ملتے تو رہے ہیں،خلوت صحیحہ بھی ہوئی ہے لیکن ازدواجی تعلق بالکل قائم نہیں کیا۔

                                    2۔اب جبکہ سائلہ ایک دوسری جگہ باقاعدہ طور پر گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرچکی ہیں تو سائلہ کے بیان کے مطابق یہ نکاح کرنے سے 3 سال پہلے ہم نے ملنا بالکل چھوڑ دیا تھا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے سوال کے جواب سے پہلے کچھ باتیں بطور تمہید سمجھنا ضروری ہیں،جوکہ درج ذیل ہیں:          1۔ایسا نکاح جس میں کوئی گواہ موجود نہ ہو اس کو نکاح فاسد کہتے ہیں۔پھر نکاح فاسد سے متعلق مزید بڑے احکام ہیں:

            کیا نکاح فاسد کو ختم کرنے کے لیے متارکت (یعنی فعلی طور پر علیحدگی اختیار کرنا یا قولی طور پر یہ کہنا کہ میں نے تمھیں چھوڑ دیا)ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے تو کیا زوجہ کی متارکت بھی معتبر ہے یا فقط زوج ہی کی متارکت معتبر ہے؟ نیز متارکت قولی ضروری ہے یا متارکت فعلی بھی کافی ہے؟

            اس امر سے متعلق یہ بات واضح رہے کہ ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعدنکاح فاسد میں متارکت قولیہ ضروری ہے۔اور ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے میں اختلاف ہے۔ایک قول یہ ہے کہ متارکت فعلیہ اس بات کے عزم کے ساتھ کافی ہے کہ  دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق نہ رکھیں گے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ متارکت قولیہ ہی ضروری ہے ۔حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے احسن الفتاوی میں لکھا ہے کہ عبارات فقہیہ میں ترجیح  قول اول کو معلوم ہوتی ہے  یعنی  متارکت فعلیہ بھی کافی ہے لیکن اس بات کا عزم ہو کہ دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ بالکل بھی تعلق نہ رکھیں گے، لیکن قول ثانی یعنی متارکت قولی کو احتیاط قرار دیا ہے۔رہی بات یہ کہ متارکت شوہر کی جانب سے ضروری ہے یا عورت کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے؟ تو اس کے متعلق بھی حضرت مفتی رشید احمد  رحمہ اللہ نے شامیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ شامیہ نے اسے ترجیح دی ہے کہ متارکت زوجہ کی طرف سے بھی صحیح ہے،(ھذا خلص ماھو مشروح فی شرح التنویر و حاشیتہ لابن عابدین رحمہ اللہ فی المحرمات ص:389 و مھر النکاح الفاسد ص:483،484 و العدۃ ص:841،842)(احسن الفتاوی:5/21)

            2۔دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نکاح فاسد میں  خلوت صحیحہ" دخول کے حکم میں ہوگی یا نہیں؟ جیسا کہ نکاح صحیح میں  اگر کسی شخص کو خلوت صحیحہ میسر ہوتی ہے تو اس کو پورا مہر ہی ادا کرنے کا حکم ہوتا ہے۔تو نکاح فاسد میں خلوت صحیحہ کی صورت میں عدت کا حکم کیا ہوگا؟

            اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح فاسد میں خلوت صحیحہ دخول کے قائم مقام نہیں، بلکہ عملا اگر دخول ہوا ہو تو عدت واجب ہوگی وگرنہ نہیں۔

            اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

            چونکہ نکاح کے منعقد ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ کم از کم دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو،لہٰذا اگر بغیر گواہوں کے موجودگی کے کسی نے ایجاب و قبول کر لیا تو یہ نکاح فاسد ہوا  جس سے  دونوں میاں بیوی نہیں بنے ،بلکہ اجنبی رہے۔

            اور چونکہ ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا  تھا اور دونوں نے فعلی طور پر متارکت اختیار بھی کرلی تھی لہٰذا اس شخص سے خلاصی کے لیے کچھ بھی  کرنے کی ضرورت نہیں ،عورت دوسری جگہ نکاح  کرسکتی ہیں۔نیز چونکہ دخول نہیں پایا گیا اور نکاح فاسد میں خلوت صحیحہ دخول کے قائم مقام نہیں ہے لہٰذا عدت بھی واجب نہیں تھی اور مزید یہ کہ نکاح صحیح ہونے سے 3 سال پہلے ہی دونوں متارکت اختیار بھی کر چکے تھے تو اگر عدت بالفرض واجب بھی ہوتی تو بالیقین گزر چکی تھی۔

            البتہ بغیر نکاح کے آپس میں جو (ازدواجی تعلق کے علاوہ) میل ملاپ رکھا اس پر اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ و استغفار کریں، اس لیے کہ   لڑکے لڑکیوں کا آپس میں کھلے یا چھپے طور پر دوستیاں لگانا  یا علامتی نکاح کرنا  کسی  طور

پر بھی جائز نہیں ،یہ کھلی بے حیائی ہے  اور اسلامی تعلیمات سے بغاوت ہے۔

                       

حوالہ جات
قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ:و لا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل و امرأتین ‘‘. ( الھدایۃ : 1/185  )             
                                       و قال ابن ھمام رحمہ اللہ:ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین عاقلین بالغین مسلمین رجلين ،أو رجل وامرأتين، عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف) اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله  صلى الله عليه وسلم :"لا نكاح إلا بشهود". (فتح القدیر : 3/199)
وقال العلامۃ ابن  عابدین رحمہ اللہ: قوله :(كالخلوة) أفاد أنه لا يجب المهر بمجرد العقد الفاسد بالأولى (قوله لحرمة وطئها) أي فلم يثبت بها التمكن من الوطء فهي غير صحيحة كالخلوة بالحائض فلا تقام مقام الوطء، وهذا معنى قول المشايخ: الخلوة الصحيحة في النكاح الفاسد كالخلوة الفاسدة في النكاح الصحيح، كذا في الجوهرة، وفيه مسامحة لفساد الخلوة بحر. والظاهر أنهم أرادوا بالصحيحة هنا الخالية عما يمنعها أو يفسدها من وجود ثالث أو صوم أو صلاة أو حيض ونحوه مما سوى فساد العقد لظهور أنه غير مراد، وهذا سبب المسامحة وفيه مسامحة أخرى، وهي أن الخلوة في النكاح الفاسد لا توجب العدة كما قدمناه عن الفتح مع أن الفاسدة في النكاح الصحيح توجبها كما مر أنه المذهب.(رد المحتار علی الدر المختار::3/ 132)
وقال ایضا:. وذكر في البحر هناك عن المجتبى أن كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة. (رد المحتار علی الدر المختار:3/ 132)
وقال ایضا:ويمكن الجواب عن السمرقندي بأنه حمل المنكوحة نكاحا فاسدا على ما سقط منه شرط الصحة بعد وجود المحلية كالنكاح المؤقت، أو بغير شهود، أما منكوحة الغير فهي غير محل إذ لا يمكن اجتماع ملكين في آن واحد على شيء واحد (رد المحتار علی الدر  المختار :3/ 517)
                                                و فی المؤطا للامام محمد رحمہ اللہ:عن أبي الزبیر أن عمر رضي اللّٰہ عنہ أتی برجل في نکاح لم یشہد علیہ إلا رجل وامرأة، فقال عمر: ہٰذا نکاح السرّ ولا نجیزہ، ولو کنت تقدمت فیہ لرجمت. (رواہ محمد في المؤطا :1/241)وذکر البیہقي عن الشافعي أنہ قال: ہو ثابت عن ابن عباس وغیرہ من الصحابة أي قولہ: لا نکاح إلا بشاہدین. (الجوہر النقی 2/79)                    
وقال اللہ تعالی :وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا.(سورۃ الاسراء:32)
وقال العلامۃ ابن کثیر رحمہ اللہ: ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا.يقول تعالى ناهيا عباده عن الزنا، وعن مقاربته، ومخالطة أسبابه ودواعيه {ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة} أي ذنبا عظيما، {وسآء سبيلا} أي وبئس طريقا ومسلكا. (تفسیر ابن کثیر:2/376)
وروی الإمام البخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا
يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم فقام رجل، فقال: يا رسول الله، امرأتي خرجت حاجة، واكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك.(الجامع الصحیح: 5233 )

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

11ربیع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب