021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کفاءت کب ثابت ہوتی ہے؟
70441نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

ایک لڑکا اور لڑکی جو کہ عاقلہ بالغہ ہے نے گواہان کی موجودگی میں نکاح خواں سے نکاح پڑھوایا۔ نکاح کو خفیہ رکھا گیا جس کا والدین کو علم نہیں تھا۔ لڑکی کا حق مہر معجّل 2 لاکھ رکھا گیا۔

میاں بیوی دونوں اردو بولنے والے ہیں اور مستقل کراچی کے رہائشی ہیں۔ لڑکی کی ذات یوسف زئی ہے اور اپنے آ پ کو اردو بولنے والے کہلاتے ہیں۔ لڑکے کے والد مرحوم دہلی انڈیا کے رہنے والے تھے اور لڑکے کی والدہ سیدہ ہیں۔ لڑکی کے والد نکاح سے پہلےاس رشتے پر راضی تھے۔ لڑکی کے خاندان والے نے بھی لڑکے کی ذمہ داری لی ہے۔ لڑکا دینی اعتبار سے پانچ وقت کا نمازی اور ایمان دار ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے اوپر کوئی چیٹنگ یا فراڈ کا کوئی کیس یا اس طرح کی کوئی بات نہیں پائی جاتی۔ کئی علماء کرام و معزز شخصیات اس کی ہر طرح کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔

لڑکے کا کاروبار پارٹنر شپ میں ہے اور ایک اچھی رقم اس میں انویسٹ کی ہے اور لڑکے کے نام پر تقریباً 80 لاکھ روپے کے پلاٹس ہیں۔ اس کے اکاؤنٹ میں 21 سے 22 لاکھ بھی موجود ہیں۔ 19 سے 20 لاکھ کی گاڑی بھی اس کے نام پر ہے۔

اب لڑکی کے والد محترم کا کہنا ہے کہ لڑکا لڑکی کا کفؤ نہیں ہے اور لڑکا بے روزگار ہے، میں اس  نکاح کو نہیں مانتا۔ کیا لڑکی کے والد کا یہ کہنا درست ہے؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ مسئلے سے متعلق دو اصول ذہن میں رکھنے چاہییں:

1۔ لڑکی اگر عاقلہ بالغہ ہو اور وہ اپنے والدین کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی سے نکاح کرے تو اس صورت میں اگر نکاح کفؤ میں ہوا ہے اور مہر مثل کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہے تو یہ نکاح منعقد ہو جائے گا۔اس صورت میں والدین کو نکاح ختم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مہر مثل سے مراد وہ مہر ہے جو خاندان میں اس جیسی لڑکی کا مقرر کیا جاتا ہو۔ اور اگر نکاح غیر کفؤ میں ہوا ہے تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

2۔کفاءت(برابری) چار چیزوں میں معتبر ہے، یعنی لڑکا اگر چھ چیزوں میں لڑکی کے برابر یا اس سے اعلیٰ ہو تو کفاءت ثابت ہوجائے گی۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں:

  1. نسب: لڑکا اچھے اور شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو ۔
  2. دین : لڑکا دیانت دار، شریف اور نیک ہو۔فاسق فاجر نہ ہو۔
  3.  مال : لڑکے کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بیوی کا مہر اور نفقہ دے سکتا ہو۔اس سے زیادہ مال دار ہونا کفاءت کے لیے ضروری نہیں۔
  4. صنعت : لڑکا کسی ایسے کاروبار یا پیشے سے وابستہ نہ ہو جس کو معاشرے میں گھٹیا اور حقیر سمجھا جاتا ہو۔

ان اصول کی روشنی میں اور سوال میں درج تفصیل کے مطابق لڑکے کے اندر وہ تمام صفات موجود ہیں جن سے کفاءت ثابت ہوجاتی ہے۔لہذا  مذکورہ صورت میں سوال کی تفصیل کے مطابق لڑکا کاروبار کرتا ہے، بالکل بے روزگار نہیں ہے، اس لیے اگر وہ لڑکی کے بنیادی اخراجات پورے کرسکتا ہے تو وہ لڑکی کا کفؤ ہے۔ لڑکی کے والد کو اس نکاح پر اعتراض کا حق نہیں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (7/ 58)
 الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح ، كذا في محيط السرخسي ولا تعتبر في جانب النساء للرجال ، كذا في البدائع .فإذا تزوجت المرأة رجلا خيرا منها ؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لا يتعير بأن يكون تحت الرجل من لا يكافئوه ، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 319)
ومنها المال.......والمعتبر فيه القدرة على مهر مثلها، والنفقة، ولا تعتبر الزيادة على ذلك حتى أن الزوج إذا كان قادرا على مهر مثلها، ونفقتها يكون كفئا لها، وإن كان لا يساويها في المال هكذا روي عن أبي حنيفة وأبي يوسف، ومحمد في ظاهر الروايات.وذكر في غير رواية الأصول أن تساويهما في الغنى شرط تحقق الكفاءة في قول أبي حنيفة، ومحمد خلافا لأبي يوسف؛ لأن التفاخر يقع في الغنى عادة، والصحيح هو الأول؛ لأن الغنى لا ثبات له؛ لأن المال غاد ورائح، فلا تعتبر المساواة في الغنى.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 55)
 (وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلف بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا.
 (قوله فنفذ إلخ) أراد بالنفاذ الصحة وترتب الأحكام من طلاق وتوارث وغيرهما لا اللزوم، إذ هو أخص منها لأنه ما لا يمكن نقضه وهذا يمكن رفعه إذا كان من غير كفء.

      سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

‏                          17/03/1442ھ       

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب