021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سمندری سفر میں سر چکرانے سےقے آنے پر وضو اور نماز کا حکم
70535پاکی کے مسائلوضوء کے نواقض یعنی وضوتوڑنے والی چیزوں کا بیان

سوال

سمندری سفر میں  دوران نماز سر چکرانے سے قے آجانے سے نماز اور وضو پر کیا اثر پڑتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر قے ہو اور اس میں کھانا  یا پانی   ہو تو، اگر منہ بھر کے  قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور  اگر  منہ  بھر   کے

نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ منہ بھر کر ہونے کا مطلب ہےکہ مشکل سے منہ میں رکے۔اگر قے میں صرف بلغم گرا تو

وضو نہیں ٹوٹا،  چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھرکر  ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔چاہے کم ہو یا زیادہ،منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوئے  لوتھڑوں  کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جاے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

            اگر تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دفعہ قے ہوئی، لیکن سب ملا کر اتنی ہےکہ اگر ایک دفعہ میں ہوتی  تو  منہ  بھر  

جاتا تو  دیکھا جائے گا کہ اگر ایک ہی متلی مسلسل باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر

ایک ہی متلی مسلسل نہیں رہی، بلکہ پہلی دفعہ کی متلی ختم ہوگئی اور طبیعت ٹھیک ہو گئی پھر دوبارہ متلی شروع ہوئی اور تھوڑی قے ہو گئی،پھر جب متلی ختم ہو گئی تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہوکر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔نیز جس صورت میں وضو ٹوٹے گا اس اس صورت میں نماز بھی جاتی رہے گی ۔لیکن اگر قے ایسی ہوئی کہ جس سے وضو تو نہیں ٹوٹتا تو نماز بھی نہیں ٹوٹے گی، لیکن کوئی شخص اس قے کو نگل گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

                       

حوالہ جات
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (و) ينقضه (قيء ملأ فاه) بأن يضبط بتكلف (من مرة) بالكسر: أي صفراء (أو علق) أي سوداء؛ وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض (أو طعام أو ماء) إذا وصل إلى معدته وإن لم يستقر، وهو نجس مغلظ، ولو من صبي ساعة ارتضاعه، هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي.              (الدر المختار وحاشية ابن عابدين :1/ 137)
                                                وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (قوله: وينقضه قيء) أفرده بالذكر مع دخوله في خروج نجس لمخالفته له في حد الخروج، وأما السيلان في غير السبيلين فمستفاد من الخروج نهر (قوله: بأن يضبط) أي يمسك بتكلف، وهذا ما مشى عليه في الهداية والاختيار والكافي والخلاصة وصححه فخر الإسلام وقاضي خان، وقيل: ما لا يقدر على إمساكه. قال في البدائع: وعليه اعتمد الشيخ أبو منصور وهو الصحيح. . . . والحاصل أنه إما أن يكون من الرأس أو من الجوف، علقا أو سائلا، فالنازل من الرأس إن علقا لم ينقض اتفاقا، وإن سائلا نقض اتفاقا. والصاعد من الجوف إن علقا فلا اتفاقا ما لم يملأ الفم، وإن سائلا فعنده ينقض مطلقا. وعند محمد لا ما لم يملأ الفم كذا في المنية وشرحها والتتارخانية. (رد المحتار علی الدر المختار:1/137)
 

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

    23 ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب