021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سمندری سفر میں مرد و عورت کی لاش ملنے کی صورت میں کفن دفن کا حکم
70541جنازے کےمسائلمردے کو غسل دینے اوردفنانے کا بیان

سوال

سمندر میں پٹرولنگ کے دوران اگر کوئی میت مل جائے عورت ہو یا مرد۔اس کے غسل، کفن اور جنازے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ہمارے جہازوں میں فی میل سٹاف نہیں ہوتا۔

نیز جہاز کے اندر آگ لگنے سے کوئی شخص جل کر یا پانی میں ڈوب کریا دشمن کی فائرنگ سے  فوت ہو جائے یا طبعی موت مر جا ئے تو اس کے غسل کفن اور جنازے کا کیا حکم ہے؟میت کو غسل دینے کا طریقہ بھی بیان فرما دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

                سمندر میں اگر کوئی لاش ملے یا جہاز کے اندر آگ لگنے سے کوئی شخص جل کر یا پانی میں ڈوب کر یا طبعی موت مر جا ئے تو  پہلی صورتیہ ہے کہ اگر ساحل قریب ہو اور میت میں تغیر کا خطرہ  نہ ہو تو ضروری ہے کہ ساحل سمندر پر پہنچا جائےوہاں پہنچ کر غسل دیا جائے ، تکفین کی جائے ، نماز جنازہ پڑھی جائے اور زمین میں دفن کیا جائے۔غسل دینے اور کفنانے کی تفصیل آگے آئے گی۔البتہ دشمن کی فائرنگ سے  جو شخص شہید  ہو جائے تو اس کو غسل اور کفن نہیں دیا جائے گا بلکہ انہی کپڑوں میں دفن کیا جائے گا،اور دفن کی تفصیل وہی ہےجواوپربیان ہوئی اورمزید تفصیل آگےبھی آرہی۔دوسری صورت یہ ہے کہ اگر آپ حضرات سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہوں اور دشمن کا خطرہ بھی ہو اور آپ حضرات ساحل کی طرف نہ آسکتے ہوں یا اگر ویسے ہی ساحل دور ہو یہاں تک کہ وہاں پہنچنے میں  اتنے  دن لگتے ہوں کہ  نعش خراب ہونے کا خطرہ ہو، اور  لاش کی حفاظت  بھی نہ کی جاسکے توپھر قریب میں کوئی جزیرہ تلاش کیا جائے  اگر مل جائے تو پھر جزیرے میں دفن کردیا جائے۔ ۔تیسری صورت اگر ممکنہ حد تک تلاش  کے بعد جزیرہ بھی نہ مل سکے اور سرحد کی طرف جانا بھی ممکن نہ ہو  تو پھر لاش کو  غسل،کفن اور جنازے کے بعد سمندر میں دفن کردیا جائے ۔ سمندر میں دفن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی وزنی چیز میت کے ساتھ باندھ دی جائے تاکہ میت پانی کے اوپر نہ آئے۔

عورت کی لاش ملنے کی صورت میں حکم:                   

          ملنے والی لاش اگر عورت کی ہو  اور ساحل پر لانے کی جو پہلی صورت اوپر بیان کی گئی ہے وہ ممکن نہ ہو اور جہاز میں فی میل سٹاف بھی نہ ہو اور جزیرے پر یا سمندر میں میت کو دفن کرنا ہو تو مرد حضرات کے لیے عورت کی   میت کو غسل دینا جائز نہیں ہوتا بلکہ تیمم کروایا جائے گا ،لہٰذا ہاتھ پر دستانے وغیرہ چڑھا کر اس عورت کو تیمم کروادیا جائے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ  پاکی کی نیت کرکے پہلے ایک بار دونوں ہاتھ  مٹی (پتھر،ریت یا جنس الارض میں سے جو بھی میسر ہو۔ چاہے پتھر کا ایک ٹکڑا جہاز میں رکھ لیا جائے ،اس پتھر پر مٹی کا ہونا بھی  ضروری نہیں بلکہ پتھر خود جنس الارض میں سے ہے لہٰذا پتھر اگرچہ بالکل صاف شفاف ہو اس پر بھی تیمم ہوجاتا ہے)پر مار کر انہیں جھاڑ دے، پھر انہیں سارے منہ پر پھیردے، اسی طرح دوسری بار دونوں ہاتھوں کو مٹی پرمار کے انہیں  ہاتھوں (بازؤں)پر کہنیوں تک  اس طرح مل دے کہ کوئی جگہ باقی نہ رہ جائے۔البتہ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سمندر سے جب نعش نکال رہے ہوں تو غسل کی نیت سے غوطہ دیتے ہوئے لے آئیں تو غسل ہوجائے گا لیکن پھر بھی احتیاطا تیمم کروادیا جائے۔

مرد کی لاش ملنے کی صورت میں حکم،نیز غسل دینے کا طریقہ:

          اگر مرد کی لاش ملے تو اس کو غسل دیں گے اور غسل کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے جس تختہ پر میت کو غسل دیاجائے اُسے اچھی طرح دھولیاجائے،اس پر میت کو قبلہ رخ یا جیسے بھی آسانی ہو لٹایا جائے، اس کے بعد میت کے بدن کے کپڑے اتاردیے جائیں اور میت کے ستر پر کوئی موٹاکپڑاڈال دیاجائے، تاکہ میت کا جسم بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے، پھر بائیں ہاتھ سے  میت کو استنجا کرائیں(ہاتھوں پر دستانے یا کوئی کپڑا چڑھا کر)، اس کے بعد وضو کرائیں  لیکن وضو میں ناک اور منہ میں پانی نہ ڈالا جائے ،بلکہ  کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ گیلی کرکے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں، اور ناک بھی اچھی طرح  صاف کردیں، اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں، تاکہ وضو وغسل کراتے ہوئے پانی اندر نہ جائے، وضو کرانے کے بعد ڈاڑھی اورسر کے بالوں کو صابن وغیرہ سے خوب اچھی طرح دھوئیں ، پھر میت کو بائیں پہلوپر لٹاکر دائیں پہلوپرصابن استعمال کرکے  خوب اچھی طرح تین مرتبہ  پانی بہادیں  ۔ پھر دائیں پہلو پر لٹاکر بائیں پہلوپر سر سے پاوں  تک اسی طرح تین مرتبہ اچھی طرح پانی ڈالا جائے ، نیز پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے۔ اس کے بعد میت کو ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں ،اگر کچھ نجاست نکلے تو اس کو صاف کرکے  دھو ڈالیں۔ پھر سارے بدن کو خشک تولیہ وغیرہ سے صاف کردیا جائے، اور آخرمیں میت کے بدن پرکافور یاکوئی اور خوشبومل دیں ور کفن پہنادیں۔

عورت کو کفن دینے کا طریقہ:

          ملحوظ رہے کہ مرد کے  کفنِ سنت میں قمیص ازار اور  لفافہ (چادر)شامل ہیں، جب کہ عورت کے کفنِ سنت میں ان تین کپڑے کے ساتھ ساتھ سینہ بند اور سر کی اوڑھنی (سر بند ) بھی شامل ہے، عورت کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ (چادر)  بچھا کر اس پر ازار بچھا دیں، پھر کرتہ (قمیص) کا نچلا نصف حصہ بچھائیں اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں، پھر میّت کو ستر کا خیال رکھتے ہوئے غسل کے تختے سے آہستہ سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹا دیں اور کرتہ  (قمیص) کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اُس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آ جائے اور پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب اس طرح قمیص(کرتہ) پہنا چکیں تو غسل/تیمم  کے بعد جو کپڑا میت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں،  پھر سر کے بالوں کے دو حصے کر کے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیں، ایک حصہ دائیں جانب اور ایک حصہ بائیں جانب، اس کے بعد سر پر اور بالوں پر سر بند ڈال دیں، اس کو نہ باندھیں اور نہ ہی لپیٹیں، اس کے بعد ازار لپیٹ دیں، پہلے بائیں طرف لپیٹیں پھر دائیں طرف، اس کے بعد سینہ بند باندھ دیں، پھر چادر لپیٹیں، پہلے بائیں جانب، پھر دائیں جانب۔ سینہ بند کو سر بند کے بعد ازار لپیٹنے سے پہلے باندھنا بھی جائز ہے اور سب کپڑوں سے اوپر باندھنا بھی درست ہے۔

مرد کو کفن دینے کا طریقہ:

            مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ بچھا کر اس پر ازار بچھا دیں، پھر کرتہ (قمیص) کا نچلا نصف حصہ بچھائیں اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں، پھر میّت کو ستر کا خیال رکھتے ہوئے غسل کے تختے سے آہستہ سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹا دیں اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اُس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آ جائے اور پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب اس طرح قمیص(کرتہ) پہنا چکیں تو غسل کے بعد جو تہبند میّت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں، اور میت کے سَر اور داڑھی پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دیں۔ پھر پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر (یعنی جن اعضاء پر آدمی سجدہ کرتا ہے) کافور (اگر ہو تو)مل دیں۔

اس کے بعد ازار کا بایاں پلّہ  میّت کے اوپر لپیٹ دیں، پھر دایاں لپیٹیں، یعنی بایاں پلّہ نیچے رہے اور دایاں اوپر، پھر لفافہ اسی طرح لپیٹیں کہ بایاں پلّہ نیچے اور دایاں اوپر رہے، پھر کپڑے کی کتر لے کر کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دیں، اور بیچ میں سے کمر کے نیچے کو بھی ایک کترنکال کر باندھ دیں، تاکہ ہوا یا ہلنے جلنے سے کھل نہ جائے۔

حوالہ جات
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(و) يسن أن (يفرش فيه التراب. مات في سفينة غسل وكفن وصلي عليه وألقي في البحر إن لم يكن قريبا من البر ولا ينبغي أن يدفن) الميت (في الدار ولو) كان (صغيرا) لاختصاص هذه السنة بالأنبياء واقعات.(الدر المختار مع رد المحتار:2/235)
                                                وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله:( وألقي في البحر) قال في الفتح: وعن أحمد يثقل ليرسب. وعن الشافعية كذلك إن كان قريبا من دار الحرب وإلا شد بين لوحين ليقذفه البحر فيدفن. اهـ. (قوله إن لم يكن قريبا من البر) الظاهر تقديره، بأن يكون بينهم وبين البر مدة يتغير الميت فيها. ثم رأيت في نور الإيضاح التعبير بخوف الضرر به(رد المحتارعلی الدر المختار:2/ 235)
                                                وقال العلامۃ  ابن الھمام رحمہ اللہ: ومن مات في سفينة دفنوه إن أمكن الخروج إلى أرض، وإلا ألقوه في البحر بعد الغسل والتكفين والصلاة. وعن أحمد يثقل ليرسب، وعن الشافعية كذلك إن كان قريبا من دار الحرب، وإلا شد بين لوحين ليقذفه البحر (فتح القدير للكمال:2/ 141)
                                                قال العلامۃ الشرنبلالی رحمہ اللہ : [من مات في البحر] ومن مات في سفينة وكان البر بعيدا وخيف الضرر غسل وكفن [وصلي عليه] وألقي في البحر.
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                ( نور الإيضاح ونجاة الأرواح  ص: 121)
                                                و روی الامام ابن حبان رحمہ اللہ: عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ قَرَأَ سُورَةَ بَرَاءَةً فَأَتَى عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ: {انْفِرُوا خِفَافاً وَثِقَالاً} [التوبة: 42] فقال: ألا ترى رَبِّي يَسْتَنفِرُنِي شَابًّا وَشَيْخًا جَهِّزُونِي فَقَالَ لَهُ بَنُوهُ: قَدْ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ وَغَزَوْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى مَاتَ وَغَزَوْتُ مَعَ عُمَرَ فَنَحْنُ نَغْزُو عَنْكَ, فَقَالَ: جَهِّزُونِي, فَجَهَّزُوهُ وَرَكِبَ الْبَحْرَ فَمَاتَ فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ جَزِيرَةً يَدْفِنُونَهُ1 فِيهَا إِلَّا بَعْدَ سَبْعَةِ أَيَّامٍ فَلَمْ يَتَغَيَّرْ. صحيح ابن حبان ، محققا (16/ 152)
                                                قال العلامۃ شعيب الأرنؤوط :إسناده صحيح على شرط مسلم. وهو في "مسند أبي يعلى" "3413"، وأخرجه ابن الأثير في "أسد الغابة" 6/182 من طريق أبي يعلى، به.وأخرجه ابن سعد 3/507، والطبراني "4683"، والحاكم 3/353 من طرق عن حماد بن سلمة، عن ثابت وعلي بن زيد، عن أنس بن مالك، وصححه الحاكم على شرط مسلم.( صحيح ابن حبان ، محققا :16/ 152)
                                                وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:ماتت بين رجال أو هو بين نساء يممه المحرم فإن لم يكن فالأجنبي بخرقة وييمم الخنثى المشكل لو مراهقا وإلا فكغيره فيغسله الرجال والنساء. يمم لفقد ماء وصلي عليه ثم وجدوه غسلوه وصلوا ثانيا وقيل لا (الدر المختار وحاشية ابن عابدين :2/ 201)
                                                وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله:( يممه المحرم إلخ) أي يمم الميت الأعم من الذكر والأنثى، وكذا قوله: فالأجنبي أي فالشخص الأجنبي الصادق بذلك، وأفاد أن المحرم لا يحتاج إلى خرقة لأنه يجوز له مس أعضاء التيمم بخلاف الأجنبي إلا إذا كان الميت أمة لأنها كالرجل. ثم اعلم أن هذا إذا لم يكن مع النساء رجل لا مسلم ولا كافر ولا صبية صغيرة فلو معهن كافر علمنه الغسل لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف وإن لم يوافق في الدين ولو معهن صبية لم تبلغ حد الشهوة وأطاقت غسله علمنها غسله لأن حكم العورة غير ثابت في حقها وكذا في المرأة تموت بين رجال معهم امرأة كافرة أو صبي غير مشتهى كما بسطه في البدائع (قوله لو مراهقا) المراد به هنا من بلغ حد الشهوة كما يعلم مما بعده ،قوله: (وإلا فكغيره) أي من الصغار والصغائر قال في الفتح: الصغير والصغيرة إذا لم يبلغا حد الشهوة يغسلهما الرجال والنساء وقدره في الأصل بأن يكون قبل أن يتكلم. اهـ. (رد المحتار علی الدر المختار:2/ 201)
                                                قال العلامۃ الطحطاوی رحمہ اللہ:كفن الرجل سنة" ثلاثة أثواب "قميص من أصل العنق إلى القدمين بلا دخريص وكمين ،و"إزار "من القرن إلى القدم ،و الثالث "لفافة" تزيد على ما فوق القرن والقدم ليلف بها الميت وتربط من أعلاه وأسفله ... وتزاد المرأة" على ما ذكرناه للرجل "في" كفنها على جهة "السنة خمارا لوجهها" ورأسها "وخرقة" عرضها ما بين الثدي إلى السرة وقيل إلى الركبة كيلاينتشر الكفن بالفخذ وقت المشي بها "لربط ثدييها" فسنة كفنها درع وإزار وخمار وخرقة ولفافة..." الخ ( حاشية الطحطاوي علي المراقي الفلاح:1/575)

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

    23 ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب