021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شادی کے وقت مہر کے علاوہ لڑکی کو دئیے گئے زیورات کی ملکیت میں اختلاف
70733ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

اگر شوہر بیوی کے مطالبہ پر طلاق دیدے تو اس کے ذمے کیا واجبات ہوں گے؟ مہر کی رقم جو کہ 50 ہزار تھی، منہ دکھائی میں دئیے جانے والے زیور یعنی کڑے کی شکل میں ادا کی گئی ہے۔ دلہا والوں کی طرف سے لڑکی کو جو زیورات ولیمے کے دن دئیے گئے، وہ اور لڑکے کے والد (جو لڑکی کے بڑے ماموں ہے) کا بنوایا ہوا فرنیچر لڑکے والوں کی رضامندی اور ان کے علم میں لائے بغیر لڑکے کے چچا نے (جو لڑکی کا ماموں ہے) نکاح نامے میں لڑکی کی ملکیت میں لکھوائے، لڑکے کو اس کا علم ہی نہیں تھا، اس سے صرف نکاح نامے پر دستخط کرائے گئے تھے۔ گواہ کے علم میں بھی یہ باتیں نہیں ہیں، اسے بھی نکاح نامہ پہلے سے نہیں دکھایا گیا تھا، صرف موقع پر دستخط لیے گئے تھے۔ جب لڑکے کی والدہ کو معلوم ہوا تو اس نے اسی وقت کہا کہ یہ تو ہمارا زیور ہے، اسے صرف پہننے کے لیے دے رہے ہیں، یہ نکاح نامے میں کیوں لکھوایا؟ لیکن انہیں یہ کہہ کر چپ کرایا گیا کہ کوئی بات نہیں، ایک ہی گھر تو ہے۔ شادی کے ایک آدھ دن بعد لڑکی کی والدہ کا بنوایا ہوا زیور اور لڑکے کی طرف سے دیا گیا بڑا زیور لڑکی سے لیکر حفاظت کے لیے لاکر میں رکھوادیا گیا۔

 لڑکی جب والد کے گھر جانے لگی تو لڑکے والوں کی طرف سے ملنے والا چھوٹا زیور سارا اپنے ساتھ لے گئی۔ لڑکے والوں کی طرف سے ملنے والا بڑا زیور اور لڑکی کی والدہ کی طرف ملنے والا زیور لڑکے کے پاس رہ گیا؛ کیونکہ وہ انہوں نے شادی کے ایک آدھ دن بعد ہی لاکر میں رکھوادیا تھا۔ اب لڑکی والے کہہ رہے ہیں کہ یہ سارا زیور ہمارا ہے، لہٰذا ہمیں دیدیں (لڑکے کا چچا بھی کہہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ لڑکی کو دیدو)۔ جبکہ لڑکے والے کہہ رہے ہیں کہ لڑکی کی والدہ نے جو زیور دیا ہے وہ آپ لے لیں، ہمارے جو چھوٹے زیورات لڑکی لے گئی ہے وہ بھی ہم واپس نہیں لیتے، لیکن ہم نے جو بڑا زیور لڑکی کو دیا تھا وہ ہمارا ہے، وہ اور فرنیچر ہم آپ کو کیوں دیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ نکاح میں مہر کے علاوہ لڑکا، لڑکی یا دونوں کے خاندان ایک دوسرے کو جو کچھ دیتے ہیں

وہ شرعا ہبہ یعنی گفٹ ہوتا ہے۔ ہبہ کے لیے جس طرح واہب یعنی گفٹ دینے والے کی رضامندی شرط ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہبہ دینے والا، موہوب لہ (جسے گفٹ دیا جارہا ہو) کو اس چیز کا باقاعدہ مالکانہ قبضہ دیدے، مالکانہ قبضہ دئیے بغیر صرف کہنے یا لکھنے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ بات واقعتا درست ہے کہ لڑکے کے چچا نے مہر کے علاوہ لڑکے والوں کے زیورات اور فرنیچر لڑکے کے علم میں لائے بغیر نکاح نامے میں لڑکی کی ملکیت میں لکھوائے تھے، جس پر لڑکے کی والدہ نے اس وقت بھی اعتراض کیا تھا، اور بعد میں بھی انہوں نے لڑکی کو ان زیورات اور فرنیچر کا مالکانہ قبضہ نہیں دیا تو لڑکی ان چیزوں کی مالکہ نہیں بنی ہے، یہ سب کچھ لڑکے کی ملکیت شمار ہوگی؛ لہٰذا اب لڑکی والوں کا ان زیورات اور فرنیچر کی ملکیت کا دعویٰ اور مطالبہ شرعا درست نہیں، بالخصوص جبکہ لڑکے کے گھر والے جو فرنیچر بناتے ہیں، اس میں عرف یہی ہے کہ وہ لڑکی کو ملکیتا نہیں دیا جاتا۔  

 یہ حکم دیانت کا ہے، قضاءً یعنی اگر معاملہ عدالت یا پنچایت میں جاتا ہے تو چونکہ نکاح نامے میں یہ زیور اور فرنیچر لڑکی کی ملکیت میں لکھے ہوئے ہیں جوکہ ہبہ اور تملیک کی دلیل ہے، اس لیے ان کی بات معتبر ہونی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف لڑکے والوں کا دعویٰ ہے کہ نکاح نامے میں یہ زیور اور فرنیچر ہماری اجازت کے بغیر اور ہمارے علم میں لائے بغیر لڑکی کی ملکیت میں لکھے گئے ہیں، ہم نے یہ دونوں چیزیں لڑکی کو ملکیتا نہیں دئیے ہیں، فرنیچر کے حق میں عرف بھی ان کی تائید کر رہا ہے کہ لڑکے والے جو فرنیچر بناتے ہیں وہ لڑکی کو نہیں دی جاتی، بلکہ لڑکے ہی کی ملکیت ہوتی ہے، جبکہ زیورات میں اگرچہ ہبہ اور عاریت دونوں طرح کے عرف پائے جاتے ہیں، لیکن لڑکی کی والدہ کا شادی کے وقت ہی نکاح نامے میں یہ زیور لڑکی کی ملکیت میں لکھنے پر اعتراض کرنا عاریت کا قرینہ ہے، اس لیے اس ساری تفصیل کے پیشِ نظر لڑکی والوں اور لڑکے کے چچا (جس نے نکاح نامے میں یہ زیور اور فرنیچر لڑکی کی ملکیت میں لکھا ہے) کو اس بات پر گواہ پیش کرنے ہوں گے کہ انہوں نے لڑکے والوں کے علم اور رضامندی سے یہ زیور اور فرنیچر لڑکی کی ملکیت میں لکھوایا ہے اور لڑکے کو لاعلم نہیں رکھا تھا، بلکہ یہ بتاکر ہی اس سے دستخط لیے ہیں۔ اگر وہ گواہ پیش کرلیتے ہیں تو لڑکی کے حق میں فیصلہ ہوگا، اور اگر وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو لڑکے والوں سے اس بات پر قسم لی جائے گی کہ یہ زیور اور فرنیچر نکاح نامے میں ان کے علم اور اجازت کے بغیر لڑکی کی ملکیت میں لکھے گئے ہیں اور یہ کہ انہوں نے یہ چیزیں لڑکی کو بطورِ ملکیت نہیں دی تھیں، اگر وہ قسم اٹھالیں تو ان کے حق میں فیصلہ ہوگا، اور اگر وہ قسم اٹھانے سے انکار کریں تو پھر یہ زیور اور فرنیچر لڑکی کو ملے گا۔

حوالہ جات
المجلة (ص: 162):

مادة 838:- الإيجاب  في الهبة  هو الألفاظ المستعملة في معنى تمليك المال  مجانا كأكرمت ووهبت وأهديت  والتعبيرات التي تدل على التمليك مجانا إيجاب للهبة ايضا كإعطاء الزوج زوجته قرطا أو حليا وقوله لها خذي هذا أو علقيه.  

شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی(3/350-348):

مادة 838:- تنبیهان: الأول: یستفاد من هذه المادة أن مجرد إعطاء الرجل لزوجته حلیًا و تمتعها به لا یکون تملیکا، بل لا بد أن یقول: خذیه أو علقیه أو نحو ذلك مما یکون تعبیرا یدل علی التملیك مجانا، حتی یکون إیجابا. و یؤیده ما فی رد المحتار آخر کتاب الهبة: رجل اشتري حليا ودفعه إلى امرأته واستعملته ثم ماتت ثم اختلف الزوج وورثتها أنها هبة أو عارية فالقول قول الزوج مع اليمين أنه دفع ذلك إليها عارية لأنه منكر للهبة ( منح).   

قال الرملی: وهذا صریح فی رد کلام أکثر العوام أن تمتع المرأة یوجب التملیك، و لا شك فی فساده، آه، و کذا قال فی البحر، و لا یکون استمتاع المرأة بمشری الزوج و رضاه بذلك دلیلا علی أنه ملکها ذلك کما تفهمه النساء و العوام، و قد أفتیت بذلك مرارًا، آه.

لکن فی رد المحتار أیضا أول کتاب الهبة ما نصه: أعطی لزوجته دنانیر لتتخذ بها ثیابا و تلبسها عنده فدفعتها معاملة فهی لها (قنیة).اتخذ لولده الصغير ثوبا يملكه وكذا الكبير بالتسليم، بزازية. اتخذ لولده ثيابا ليس له أن يدفعها إلى غيره إلا إذا بين وقت الاتخاذ أنها عارية وكذا لو اتخذ لتلميذه ثيابا فأبق التلميذ فأراد أن يدفعها إلى غيرها، بزازية.

 و کتب قبل هذا ما نصه: وفي خزانة الفتاوى إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك (بيري).  قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك، كمن دفع لفقير شيئا وقبضه ولم يتلفظ واحد منهما بشيء، وكذا يقع في الهداية ونحوها، فاحفظه، ومثله ما يدفعه لزوجته أو غيرها، آه.

و یظهر لی من مجموع هذه النقول أن الهبة کما تنعقد بالألفاظ الدالة علی التملیك مجانا لغة أو عرفا،

تنعقد أیضا بالفعل بطریق التعاطی، کما ستأتی فی المادة الآتیة، لکن مع قرینة لفظیة أو حالیة، و منها
والعادة، تعین أن ذلك الفعل أرید به التملیك، فاللفظیة کقول الرجل فی مسئلتنا "خذیه أو
علقیه"، أو کما لو دفع لها دراهم و قال: اتخذی بها ثیابا و البسها، و کذا لو قال لها: متعتك بهذه

الثیاب أو بهذه الدراهم کما فی الهندیة عن محیط السرخسی. و الحالیة کما إذا اتخذ لولده أو لتلمیذه ثیابا فإن الاتخاذ مشعر بمادته أنه فعل بالثیاب ما یجعلها ملایمة لهما طولا و عرضا و نحو ذلك، فکان ذلك قرینة علی إرادة التملیك، أو یقال: إن العرف فی مثل هذا قرینة علی إرادته، و کذا إذا دفع لابنیه کل واحد منهما مبلغا من الدراهم و کل منهما تصرف بما فی یده، ثم عمد إلی أحدهما فقال إن ما دفعته له قرض، و هو یعترف بأن ما دفعه للآخر تملیك؛ فإن هذا قرینة حالیة علی إرادة التملیك بالدفع للأول أیضا؛ لأن الظاهر التسویة بالعطیة بین الأولاد عرفا و شرعا، و لو لا هذه القرینة لکان القول قول الأب، و هکذا‎.

و قد أجاب فی الخیریة عما یرسله الشخص إلی غیره فی الأعراس و نحوها بقوله "إن کان العرف بأنهم یدفعونه علی وجه البدل یلزم الوفاء، إن مثلیًا فمثله و إن قیمیًا فقیمته. و إن کان العرف خلاف ذلك بأن کانوا یدفعونه علی وجه الهبة و لا ینظرون فی ذلك إلی إعطاء البدل فحکمه حکم الهبة فی سائر أحکامه، فلا رجوع فیه بعد الهلاك أو الاستهلاك. و الأصل أن المعروف عرفا کالمشروط شرطا، آه.

و لا ینافی ما قلناه ما فی رد المحتار فی باب المهر و آخر باب التحالف عن البدائع حیث قال: و هذا یعنی کون القول قولها مما یصلح لها إذا لم تقر المرأة أن هذا المتاع اشتراه الزوج لها، فإن أقرت بذلك سقط قولها؛ لأنها أقرت بالملك لزوجها ثم ادعت الانتقال إلیها، فلا یثبت الانتقال إلیها إلا ببینة، آه.؛ لأن الانتقال إلیها الذی کلفت لاثباته بالبینة یشمل ما إذا کان بطریق الهبة المدلول علیها بالقرائن اللفظیة کقوله لها "خذی هذا أو علقیه"، أو بالقرائن الحالیة کالعرف و العادة و نحوها، فتدبر.

  و من تأمل فی فروعهم فی کتاب الهبة وجد أکثرها دایرا مع القرائن اللفظیة أو الحالیة، فتأمل و راجع لرشد. ثم إن القرینة إنما تعتبر إذا لم یعارضها الصریح، و إلا بأن أشهد حین التسلیم أنه بطریق العاریة فلا اعتبار لها؛ لأن الصریح أقوی من الدلالة. و بما ذکرنا تتخلص عباراتهم من شائبة الانتقاض و تنحسم عنها مادة الاعتراض.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

13/ربیع الثانی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب