021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایل بی ایل کمپنی کی ایپ (لیڈ اپ) پر مختلف طریقوں سے کمائی کرنے کا حکم
70828اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

خلاصہ و ترتیب سوال:    میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں جس کا نام LBL ہے۔ اس میں دو طرح کے کام ہوتے ہیں:

پہلا طریقہ:

اس میں فری رجسٹریشن کروانی ہوتی ہے۔ رجسٹر ہونے کے بعد اس کی ایک ایپ ہے Leadup کے نام سے، اس پر کام کرنا ہوتا ہے۔ کام یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کچھ ویڈیوز ہوتی ہیں جنہیں مکمل دیکھنے پر کچھ پوائنٹس ملتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لنکس پر کلک کرنا ہوتا ہے جس پر بھی پوائنٹس ملتے ہیں۔ کچھ لنکس ایسے ہوتے ہیں جنہیں فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر پر شئیر کرنا ہوتا ہے اور ان پر بھی پوائنٹس ملتے ہیں۔ یہ پوائنٹس امریکی ڈالر کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی ایپ کے اندر مزید تین ایپس ہیں جنہیں صرف ٹائم دینا ہوتا ہے اور روزانہ آدھے گھنٹے تک ان پر کلک کرنا ہوتا ہے۔ اس پر بھی پوائنٹس ملتے ہیں۔

اب یہاں یہ صورت ہے کہ پہلے ایک سو ڈالر کمپنی کو دینے ہوتے ہیں جس پر اس بندے کا اکاؤنٹ اپ گریڈ ہوگا اور اس کو ماسٹر کارڈ اور کچھ کورسز وغیرہ ملتے ہیں۔ یہ شخص اپنی کمائی اس کارڈ کے ذریعے کسی بھی وقت اے ٹی ایم مشین سے نکال سکتا ہے۔

جب یہ شخص 100 ڈالر دے کر اپنا اکاؤنٹ اپ گریڈ کرتا ہے تو جس نے اس کو رجسٹر کروایا تھا اس کو کمپنی کی طرف سے 1860 روپے کمیشن ملتا ہے۔اب اگر یہ شخص آگے اسی طرح اپنے ذریعے لوگ لگاتا ہے اور وہ اکاؤنٹ اپ گریڈ کرتے ہیں تو اس پر اس کو بھی کمیشن ملے گا اور اس سے اوپر والوں کو بھی کمیشن ملے گا۔

اب سوالات یہ ہیں:

1.     ویڈیوز دیکھنے اور لنکس پر کلک کرنے پر ملنے والی آمدن جائز ہے؟

2.     فیس بک وغیرہ پر لنک شئیر کرنے کی آمدن کا کیا حکم ہے؟

3.     ایپس پر کلک کرنے کا کیا حکم ہے؟

4.     سو ڈالر دینے اور اس کے عوض ماسٹر کارڈ اور کورسز حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟

5.     جو کمیشن یہ کمپنی دے رہی ہے اس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ کسی کام کی جس منفعت پر دو افراد کے مابین اجارے (کرائے داری) کا معاملہ ہو وہ اصلاً مقصود ہونا چاہیے۔ کمپنیاں اشتہار بازی (Advertisement) اس لیے  کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات کی فروخت میں اضافہ ہو سکے۔ بالعوض اشتہارات دکھانے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔  نیزاس طرح کے اشتہارات سے گوگل و دیگر سرچ انجن کی لسٹ میں اوپر آنے کا مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا کہ انہیں اس کام کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے برعکس اس کام کو غلط ویب ٹریفک دکھا کر جعل سازی کرنے  کے لیے بکثرت کیا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں سوال میں پوچھے گئے نکات کا جواب بالترتیب یہ ہے:

1.     ویڈیوز دیکھنا اور لنکس پر کلک کرنا ایسا کام نہیں ہے جو اصلاً مقصود ہو، لہذا اس کی اجرت جائز نہیں ہے۔ نیز اس سے عموماً اصل مقصود جعلی طریقے سے "امپریشنز  (ویب سائٹ پر آنے والے افراد کی تعداد)" بڑھانا اور اشتہار لگانے والی کمپنیوں کو دھوکہ دے کر ان سے رقوم وصول کرنا  ہوتا ہے جو کہ شرعاً ناجائز اورحرام ہے۔

2.     فیس بک وغیرہ پر لنک شئیر کرنا تسویق (اشتہار بازی) کا حصہ ہے۔ لہذا اگر لنک کسی غیر شرعی ویب سائٹ یا غیر شرعی چیز کا نہ ہو اور اشتہار کا مواد دھوکہ دہی یا جعل سازی پر مشتمل نہ ہو تو اسے شئیر کرنا اور اس کی اجرت لینا شرعاً  جائز ہے۔

3.     ایپس پر کلک کرنا اور چیزیں دیکھنا بھی ایسا کام نہیں ہے جو اصلاً مقصود ہو، لہذا اس کی اجرت بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔

4.     کمپنی سو ڈالر کے عوض جو کورسز فراہم کرتی ہے، اگر وہ معتد بہ (قابل اعتبار) قیمت رکھتے ہیں اور کمپنی ماسٹر کارڈ کے جاری کرنے کی کوئی الگ سے فیس نہیں لیتی تو یہ رقم دینا اور اس کارڈ اور  ان کورسز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔

5.      کمیشن دینے کے اس طریقے کو ملٹی لیول مارکیٹنگ کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ چونکہ کمپنی کا افراد کے ساتھ بنیادی معاملہ درست ہے لہذا  اگرآپ نے کسی شخص کو بلاواسطہ کمپنی میں شامل کیا تو اس کی اجرت لینا آپ کے لیے جائز ہے۔ لیکن آگے وہ اگر کسی کو شامل کرتا ہے تو اس کی اجرت لینا آپ کے لیے درست نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)
 
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: يا صاحب الطعام، ما هذا؟، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، ثم قال: من غش فليس منا."
(سنن الترمذي، 2/597، دار الغرب الاسلامی)
 
فروع: لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن لان الغش حرام إلا في مسألتين: الاولى: الاسير إذا شرى شيئا ثمة ودفع الثمن مغشوشا جاز إن كان حرا لا عبدا.
الثانية: يجوز إعطاء الزيوف والناقص في الجبايات.
(الدر المختار، 1/412، ط: العلمية)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 05/ جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب