021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آن لائن اشیاء بیچنے کے جائز ہونے کا اصول
70801خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میری ایک ٹیم ہے جسے میں اور ایک دوست لیڈ کرتے ہیں۔ ہماری ٹیم میں سات ممبر ہیں اور ہم ساتوں دوست ہیں جو مختلف آن لائن کاروبار کرتے ہیں۔ تقریباً چار یا پانچ سالوں سے ہم اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ اس سے پہلے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارا کام دین کے مطابق ہو۔ اب کچھ خیال آیا ہے تو ہمارے کام کے بارے میں سوالات لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ ان کے جواب تفصیل سے دیں گے۔ ہمارا کام عام طور پر چیزوں کی خرید و فروخت (دراز، او ایل ایکس) کا بھی ہے اور سروسز (فائیور، اپ ورک، فری لانسر، سوشل میڈیا کے ذریعے) بھی ہے۔ شروع سروسز سے کیا تھا اور اب سیلنگ بھی کرتے ہیں۔

آن لائن کیا چیز بیچنا جائز ہے اور کیا بیچنا ناجائز ہے؟ اس کا کوئی اصول ہو تو بیان فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی چیز کے فروخت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:

1.     بیچی جانے والی چیز مال ہو، یعنی کوئی ایسی مادی چیز ہو جس کی لوگوں کے یہاں قیمت ہو۔

2.     جس چیز کو بیچا جائے اس کا جائز استعمال معتد بہ (قابل اعتبار) مقدار میں پایا جاتا ہو۔

3.     وہ چیز بیچتے وقت بیچنے والے کی ملکیت اور قبضے میں ہو۔

اگر یہ شرائط نہ پائی جائیں (مثلاً بیچی جانے والی چیز مال ہی نہ ہو یا مال تو ہو لیکن اس کا استعمال صرف ناجائز ہو جیسے آلات موسیقی وغیرہ یا وہ بیچتے وقت بیچنے والے کی ملک اور قبضے میں نہ ہو) تو اسے بیچنا جائز نہیں ہے ۔ اس میں آن لائن یا آف لائن فروخت کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔

حوالہ جات
"وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم على وجه) مفيد. (مخصوص) أي بإيجاب أو تعاط، فخرج التبرع من الجانبين والهبة بشرط العوض، وخرج بمفيد ما لا يفيد۔۔۔."
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 4/504، ط: دار الفکر)
 
أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع.
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 5/51، ط: دار الفکر)
 
"المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا. "
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 4/501، ط: دار الفكر)
 
و لكن قصر بعض الحنفية المال على الأعيان فقط، فقال الحصكفي ؒ في شرحه على ملتقى الأبحر: "و المراد بالمال عين يجري فيه التنافس و الابتذال". و إن هذا التصريح في تعريف المال بانحصاره في الأعيان لا يوجد عند غيره بهذا الوضوح، و لكن الذي يستنبط من كلام الفقهاء الحنفية، و لاسيما المتاخرين منهم، أن هذا القيد ملحوظ عندهم في تعريف المال... و لكن يظهر من عدة فروع الحنفية أنهم أجازوا بيع بعض المنافع المتعلقة بالأعيان، مثل حق المرور، فألحقوها بالأعيان في كونها مالا۔۔۔.
(فقه البيوع على المذاهب الأربعة، 1/26، ط: مكتبة معارف القرآن)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 5/ جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب