021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کا حکم اور فسخ نکاح کا طریقہ
70789طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میں بنت عمرجس کی شادی 14 فروری 2019 کو ہوئی۔ شادی کے تقریباً ساڑھے چار مہینے بعد ناچاقی کے سبب ہمارے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد 16 ماہ سے میں اپنے والدین کے گھر میں ہوں۔اسی دوران میں نے کورٹ سے بتاریخ 31 فروری 2020 کو خلع نامہ بنوایا۔شوہر کسی بھی صورت میں خلع دینے پر راضی نہیں ہے۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ اس عدالتی خلع نامہ کی بنیاد پر میرا خلع ہوا ہے یا نہیں؟ جبکہ میرا خاوند مجھ کو مارتا تھا اور ساس بھی ظلم کرتی تھی۔ میرا شوہر خرچہ وغیرہ بھی نہیں دیتا تھا، صرف جوائنٹ فیملی میں کھانا پینا چل جاتا تھا۔ اگر خلع نہیں ہوا تو ان سے جان چھڑانے کا (نکاح ختم کرنے کا) کیا طریقہ ہے؟ اوراگر خلع ہوگیا تو اس کی عدت کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع ایک عقد  ہے جس میں زوجین(میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔ان میں سے کوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو خلع واقع نہیں ہوتا۔لہذا شوہر کی رضامندی کے بغیر صرف بیوی کے دعویٰ کی بنیاد پر عدالت خلع واقع نہیں کرسکتی۔سوال کے مطابق چونکہ شوہر خلع دینے پر راضی نہیں اس لیے عدالت کے اس فیصلے سے خلع واقع نہیں ہوا اور بیوی تاحال اپنے شوہر کے نکاح میں ہے۔

 بہتریہ ہے کہ دونوں گھرانوں کے سمجھدار لوگ میاں بیوی کو سمجھابجھا کر ان میں صلح کرالیں اور شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے پرآمادہ کریں تاکہ ان کا گھر ٹوٹنے سے بچ جائے اور نکاح برقرار رہے۔سمجھانے کے باوجود اگر میاں بیوی

میں بنت عمرجس کی شادی 14 فروری 2019 کو ہوئی۔ شادی کے تقریباً ساڑھے چار مہینے بعد ناچاقی کے سبب ہمارے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد 16 ماہ سے میں اپنے والدین کے گھر میں ہوں۔اسی دوران میں نے کورٹ سے بتاریخ 31 فروری 2020 کو خلع نامہ بنوایا۔شوہر کسی بھی صورت میں خلع دینے پر راضی نہیں ہے۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ اس عدالتی خلع نامہ کی بنیاد پر میرا خلع ہوا ہے یا نہیں؟ جبکہ میرا خاوند مجھ کو مارتا تھا اور ساس بھی ظلم کرتی تھی۔ میرا شوہر خرچہ وغیرہ بھی نہیں دیتا تھا، صرف جوائنٹ فیملی میں کھانا پینا چل جاتا تھا۔ اگر خلع نہیں ہوا تو ان سے جان چھڑانے کا (نکاح ختم کرنے کا) کیا طریقہ ہے؟ اوراگر خلع ہوگیا تو اس کی عدت کا کیا حکم ہے؟

 

میں نباہ نہ ہوسکے اور شوہر طلاق یا خلع دینے پر بھی راضی نہ ہو تو پھر بیوی عدالت کے ذریعے شوہر سے جدائی حاصل کرسکتی ہے۔

عدالت کے ذریعے نکاح ختم کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی عدالت میں فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے اور گواہوں کے ذریعے شوہر کا جرم(مارپیٹ، نان و نفقہ نہ دینا) ثابت کرے۔گواہوں میں دو دیانت دار مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہونے چاہییں۔اگر اس طرح عدالت میں شوہر کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر عدالت نکاح ختم کرسکتی ہے۔ اور اگر بیوی کے پاس گواہ نہ ہوں یا وہ گواہوں کو پیش نہ کرے تو پھر شوہر سے قسم لی جائے گی کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔اگر شوہر نے قسم اٹھائی تو اس کے مطابق فیصلہ ہوگا اور نکاح ختم نہیں ہوگا، اور اگر شوہر نے قسم سے انکار کیا تو اس صورت میں بیوی کا دعویٰ ثابت ہوجائے گا، لہذا اب قاضی(جج) شوہر سے طلاق یا خلع دلوائے۔ اگر شوہر طلاق یا خلع دینے پر راضی نہ ہو اور بیوی کے حقوق ادا کرنے پر بھی آمادہ نہ ہو تو اس صورت میں جج بغیر مہلت دیےاز خود شوہر کی طرف سے اس کی بیوی پر طلاق واقع کرے۔ اس صورت میں عدالت کا فیصلہ فسخ نکاح (نکاح ختم کرنا) شمار ہوگا اور بیوی اس فیصلے کے بعد شوہر سے جدا ہوجائے گی۔

صورت مسئولہ میں خلع لیتے وقت اگر بیوی مذکورہ بالا طریقہ کار کو اپنا چکی ہے اور گواہوں کے ذریعے شوہر کا جرم ثابت کرچکی ہے تو پھر عدالت کا یہی فیصلہ(جو وہ خلع کے حق میں سنا چکی ہے) فسخ نکاح شمار ہوگا، جس کی وجہ سے بیوی کا نکاح ختم تصور ہوگا۔اس صورت میں عدت گزارنے کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ورنہ اس مسئلہ کو دوبارہ عدالت یا ایسی پنچایت میں پیش کردیا جائے جس میں کم از کم ایک مستند مفتی یا عالم دین ہو، وہ گواہی لےکر شوہر سے رابطہ کرکے مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق نکاح کو فسخ کردے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2/ 59)
 (قوله ولزمها المال) ؛ لأنه إيجاب وقبول يقع به الفرقة من قبل الزوج ويستحق العوض منها وقد وجدت الفرقة من جهته فلزمها المال ولا يصح الخلع والطلاق على مال إلا بالقبول في المجلس.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.

سیف اللہ

    دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

    ھ 05/05/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب