021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حسن لغیرہ یا حسن لذاتہ سے ثابت شدہ فعل پرسنت کی نیت سے عمل کرنا
70908حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

حدیث حسن لغیرہ یا حسن لذاتہ کے ذریعہ ثابت شدہ عمل میں سنت کی نیت کرنا جائز ہے یا نہیں؟حدیث حسن لغیرہ یا حسن لذاتہ کے ذریعہ ثابت شدہ عمل میں سنت کی نیت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام نے احکام تکلیفیہ کے اعتبار سے سنت کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں:

1۔سننِ ہدی: سننِ ہدی  سے مراد وہ سنتیں ہیں جن کا تعلق عبادت کے ساتھ ہے، جیسے اذان، اقامت،  فجر اور ظہر کی سنتیں اوربچے کےکان میں اذن دینا  وغیرہ۔ ان کو اصطلاح میں سنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امت کے لیے سنت قرار دیا اور یہ سنتیں امت میں بطورِ دین رائج ہوئیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثِ صحیح یا حسن کے ذریعہ ان کا ثبوت موجود ہونا اس عمل کو سنت قرار دینے کے لیے کافی نہیں، اسی لیے علمائے اصولیین رحمہم اللہ نے حدیث اور سنت میں فرق بیان کیا ہے،حدیث حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے، خواہ وہ عمل امت میں بطور دین رائج ہو یا نہ ہو، چنانچہ بعض اعمال حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے اور بعض اعمال کسی ضرورت کے پیش نظر کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ امت میں رائج نہیں ہوئے، جبکہ سنت  فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اس طریقے کو کہا جاتا ہے جو امت میں بطور دین رائج ہو جائے۔ چنانچہ کتبِ فقہ واصولِ فقہ میں سنت کی یہی تعریف ذکر کی گئی ہے،  جیسا کہ علامہ عبدالعزیز بن احمد حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

كشف الأسرار شرح أصول البزدوي (2/ 302) عبد العزيز بن أحمد الحنفي (المتوفى: 730هـ) دار الكتاب الإسلامي، بیروت:ُ

هو أي لفظ السنة في الشريعة اسم للطريق المسلوك في الدين يعني من غير افتراض، ولا وجوب كما أشار إليه في بيان الحكم سواء سلكه الرسول أو غيره ممن هو علم في الدين. وذكر في بعض النسخ لا خلاف في أن السنة هي الطريقة المسلوكة في الدين.

اس سے معلوم ہوا کہ حدیث عام اور سنت خاص ہے،  لہذا اگر کوئی عمل حدیثِ صحیح، حسن لذاتہ یا حسن لغیرہ سے ثابت ہو تو بھی  اصطلاحی معنی میں سنت ہونے کے لیے اس کا امت میں بطورِ دین رائج ہونا ضروری ہے،  جبکہ  حدیث کے لیے  حضواکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کافی ہے، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اور جوتوں سمیت نماز پڑھنا وغیرہ مستند  احادیث سے ثابت ہے، لیکن ان میں  سے کوئی بھی کام اصطلاحی اعتبار سے سننِ ہدی میں داخل  نہیں اور نہ ہی ان کو سنت سمجھ کر کرنا مطلوب ہے، یہی وجہ ہے کہ روایات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  امت  کو حدیث پر نہیں، بلکہ سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا  ہے۔ لہذا حدیث حسن لذاتہ یا حسن لغیرہ سے ثابت شدہ جو عمل امت میں بطورِ دین رائج اور امت اس پر عمل پیرا ہو اس کو سننِ ہدی میں سے شمار کیا جائے گا۔

2۔ سننِ عادیہ: سننِ عادیہ  کو سننِ زوائد بھی کہا جاتا ہے، ان کا تعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی  سیرتِ طیبہ اور عاداتِ مبارکہ سے ہوتا ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا کھانے ، لباس پہننے ، جوتا پہننے ، بالوں میں مانگ نکالنے اور سونے کا طریقہ وغیرہ ، ان سنن کا حکم یہ ہے کہ یہ حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ دونوں قسم کی روایات سے ثابت ہو جاتی ہیں، اگرچہ امت میں بطور دین رائج نہ ہوں۔ لہذا اس طرح کے ثابت شدہ اعمال کو سننِ عادیہ میں سے سمجھ کر کرنا درست ہے اور ان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ  طریقے کے مطابق ادا کرنے  پر اجر بھی  ملے گا۔

تنبیہ:

واضح رہے کہ پیچھے ذکر کی گئی  سنت کی  تقسیم  فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک احکامِ تکلیفیہ( فرض، واجب، سنت، مستحب وغيره) کے اعتبار سے ہے، جہاں تک سنت کے حجت ہونے اور احكام كے ليے ماخذ ہونے کا تعلق ہے تو اس میں فقہائے کرام، علمائے اصولیین اور محدثین کرام رحمہم اللہ سب کے نزدیک سنت اور حدیث میں کوئی فرق نہیں، بلکہ دونوں ہم معنی اور مترادف ہیں، دونوں کو کتاب اللہ کے بعد احکام کے دوسرے نمبرکے ماخذ طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور علمائے اصولیین اور عام محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک اس کا اطلاق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر تینوں چیزوں پر کیا جاتا ہے اور ان تینوں کو حدیث اور سنت کہنا درست ہے۔

حوالہ جات
سنن الترمذي (4/ 149، رقم الحدیث: 2816) دار الفكر للطباعة والنشر، بیروت:
 حدثنا على بن حجر ، أخبرنا بقية بن الوليد ، عن بحيرابن سعيد عن خالد بن معدان ، عن عبد الرحمن بن عمرو السلمى ، عن العرباض بن سارية قال : " وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منهاالقلوب
فقال رجل إن هذه موعظة مودع فبماذا تعهد إلينا يارسول الله ؟ قال : أوصيكم بتقوى الله ، والسمع والطاعة وإن عبد حبشي فإنه من يعش منكم ير اختلافا كثيرا، وإياكم ومحدثات الامور، فإنها ضلالة فمن أدرك ذلك منكم فعليه بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالواجذ" هذا حديث حسن صحيح۔
سنن الدارقطني (4/ 245، رقم الحدیث: 149) دار المعرفة، بيروت:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: خلفت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله وسنتي۔
صحيح البخاري (1/ 54، رقم الحديث: 224) دار طوق النجاة:
حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن حذيفة»، قال «أتى النبي صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما، ثم دعا بماء فجئته بماء فتوضأ۔
صحيح البخاري (1/ 86، رقم الحديث: 386) دار طوق النجاة:
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال: حدثنا شعبة، قال: أخبرنا أبو مسلمة سعيد بن يزيد الأزدي، قال: سألت أنس بن مالك: أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في نعليه؟ قال: «نعم»
سنن الترمذي ت: شاكر (1/ 133رقم الحديث:86) مطبعة مصطفى الحلبي – مصر:
حدثنا قتيبة، وهناد، وأبو كريب، وأحمد بن منيع، ومحمود بن غيلان، وأبو عمار، قالوا: حدثنا وكيع، عن الأعمش، عن حبيب بن أبي ثابت، عن عروة، عن عائشة، «أن النبي صلى الله عليه وسلم قبل بعض نسائه، ثم خرج إلى الصلاة ولم يتوضأ»، قال: قلت: من هي إلا أنت؟ فضحكت۔
كشف الأسرار شرح أصول البزدوي (2/ 310) دار الكتاب الإسلامي:
 والسنن نوعان سنة الهدى وتاركها يستوجب إساءة وكراهية والزوائد وتاركها لا يستوجب إساءة كسير النبي - عليه السلام - في لباسه وقيامه وقعوده وعلى هذا مسائل باب الأذان كتاب الصلاة اختلفت فقيل مرة يكره ومرة أساء ومرة لا بأس به لما قلنا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 103) دار الفكر-بيروت:
والسنة نوعان: سنة الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي - عليه الصلاة والسلام - في لباسه وقيامه وقعوده. والنفل ومنه المندوب يثاب فاعله ولا يسيء تاركه، قيل: وهو دون سنن الزوائد.
 
 
الإحكام في أصول الأحكام للآمدي (1/ 169) أبو الحسن سيد الدين علي بن أبي علي بن محمد بن سالم الثعلبي الآمدي (المتوفى: 631ھ) الناشر: المكتب الإسلامي، بيروت- دمشق:
الأصل الثاني في السنة وهي في اللغة عبارة عن الطريقة، فسنة كل أحد ما عهدت منه المحافظة عليه والإكثار منه، كان ذلك من الأمور الحميدة أو غيرها. وأما في الشرع فقد تطلق على ما كان من العبادات نافلة منقولة عن النبي عليه السلام وقد تطلق على ما صدر عن الرسول من الأدلة الشرعية مما ليس بمتلو، ولا هو معجز ولا داخل في المعجز، وهذا النوع هو المقصود بالبيان هاهنا، ويدخل في ذلك أقوال النبي عليه السلام، وأفعاله وتقاريره.
نهاية السول شرح منهاج الوصول (ص: 249) عبد الرحيم بن الحسن الشافعيّ، أبو محمد، جمال الدين (المتوفى: 772هـ) الناشر: دار الكتب العلمية –بيروت:
السنة لغة هي العادة والطريقة قال الله تعالى: {قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ} [آل عمران: 137] أي: طرق, وفي الاصطلاح تطلق على ما يقابل الفرض من العبادات وعلى ما صدر من النبي صلى الله عليه وسلم من الأفعال أو الأقوال التي ليست للإعجاز وهذا هو المراد هنا.
إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول (1/ 95) محمد بن علي بن محمد بن عبد الله الشوكاني اليمني (المتوفى: 1250هـ)
السنة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وفي الأدلة ما صدر عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير القرآن من قول أو فعل أو تقرير، وهذا هو المقصود بالبحث عنه في هذا العلم.

      محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

10/جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب