021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نمازِ اشراق کا ثبوت
70909حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

نمازِ اشراق  سے متعلق کوئی صحیح حدیث ہو تو قلم بند فرمائیں، تاکہ سنت کی نیت سے اس کو ادا کیا جا سکے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نمازِ اشراق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے نمازِ اشراق سے متعلق درج ذیل سند کے ساتھ  ایک حدیث ذکر کی ہے اور انہوں نے اس روایت کو حسن قرار دیاہے:

 

سنن الترمذي  (1/ 727، رقم الحديث: 586) دار الغرب الإسلامي – بيروت:

 حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي البصري، قال: حدثنا عبد العزيز بن مسلم، قال:

حدثنا أبو ظلال، عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة. هذا حديث حسن غريب.

ترجمہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور پھر اپنی جگہ پر بیٹھا اللہ کے ذکر میں مشغول رہا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھی تو اس کو ایک کامل حج اور ایک کامل  عمرے کا ثواب دیا جاتا ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ امام طبرانی، امام بغوی اور دیگر محدثین  کرام رحمہم اللہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے، لہذا اس حدیث پر سنت کی نیت سے عمل کرنا جائز ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کراللہ کے ذکر، تلاوت اور تسبیح و تحمید وغیرہ میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے پر دورکعت نماز اشراق کی نیت سے پڑھے تو اس کو حدیث میں بیان کی گئی فضیلت حاصل ہو جائے گی، نیز اگر اسی مسجد میں تلاوت کے لیے قرآن اٹھانے، کسی علمی یا اصلاحی مجلس میں شریک ہونے یا  بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو بھی کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ کسی دنیوی بات یا کام میں مبتلا نہ ہو، کیونکہ اصل مقصود سورج کے طلوع ہونے تک اللہ کی یاد میں مشغول رہنا ہے، اسی لیے ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر چلا جائے اور سورج کے طلوع ہونے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہے تو بھی یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ مسجد کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کے ذکر وغیرہ میں مشغول رہے، کیونکہ یہ حدیث کے الفاظ "قعد يذكر الله" کے زیادہ قریب ہے۔

حوالہ جات

المعجم الكبير للطبراني (8/ 178، رقم الحديث: 7741  ) مكتبة ابن تيمية – القاهرة:

حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا المغيرة بن عبد الرحمن الحراني، ثنا عثمان بن عبد الرحمن، عن موسى بن علي، عن يحيى بن الحارث، عن القاسم، عن أبي أمامة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى صلاة الغداة في جماعة، ثم جلس يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم قام فركع ركعتين، انقلب بأجر حجة وعمرة»

 

شرح السنة للبغوي (3/ 221، رقم الحدیث: 710) المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت:

أخبرنا أبو عثمان الضبي، أنا أبو محمد الجراحي، نا أبو العباس المحبوبي، نا أبو عيسى، نا عبد الله بن معاوية الجمحي البصري، نا عبد العزيز بن مسلم، نا أبو ظلال، عن أنس،قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين، كانت له كأجر حجة وعمرة»، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تامة، تامة، تامة».

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 770، رقم الحدیث: 971 ) دار الفكر، بيروت:

عن أنس (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذكر الله» ) ، أي: استمر في مكانه ومسجده الذي صلى فيه، فلا ينافيه القيام لطواف أو لطلب علم أو مجلس وعظ في المسجد، بل وكذا لو رجع إلى بيته واستمر على الذكر۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 328) إدارة البحوث العلمية والدعوة والإفتاء  الجامعة السلفية - بنارس الهند:

قوله: (ثم قعد يذكر الله) أي استمر في مكانه ومسجده الذي صلى فيه مشتغلاً بالذكر. (ثم صلى ركعتين) قال الطيبي: أي ثم صلى بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتى يخرج وقت الكراهة، وهذه الصلاة تسمى صلاة الإشراق، وهي أول الضحى-انتهى.

                                                   y

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

10/جمادی الاولی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب