021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آن لائن ایپلی کیشن کمپنی میں بطور ایجنٹ کام کرنا
71182اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

 پہلے میں ایک کمپنی میں جاب کرتا تھا پھر اس کو چھوڑ کے ایک آن لائن ایپلی کیشن میں  ٹاپ اپ ایجنٹ کا کام شروع کیا۔ اس ایپلی کیشن کے اندر مختلف لڑکے اور لڑکیاں آپس میں آڈیو چیٹنگ کرتے ہیں، اس ایپلی کیشن میں مختلف لڑکیاں ہوسٹنگ کرتی ہیں، اس ہوسٹنگ میں کمپنی ان کو کچھ ٹارگٹ دیتی ہے، جن میں ان لڑکیوں کو اپنی ہوسٹنگ آن کرکے ہوسٹنگ پر بیٹھ کر مختلف آنے والے حضرات سے کچھ گفٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں، یہ گفٹ  کسی کوئن کی شکل میں ہوتے ہیں اور وہ  لڑکے لڑکیوں کو سینڈ کرتے ہیں، جس سے لڑکیوں کو کمپنی سیلری دیتی ہے۔ میرا کام اس ایپلی کیشن پر لڑکے لڑکیوں کو جو گفٹ بھیجتے ہیں ان کوئن کو ری چارج کرکے دیتا ہوں۔ مجھے کمپنی جو کوائن دیتی ہے وہ ایک ویب سائٹ کے پورٹل میں ہوتے ہیں، مجھے لڑکے  پیسے میرے اکاونٹ میں سینڈ کرتے ہیں، میں ان پیسوں کے عوض ان کو کوائن لگا کے دیتا ہوں، مہینے کے آخرکمپنی تمام پیسوں کا مجھے 3 پرسنٹ کمیشن دیتی ہے۔ میں ایک موبائل پر اپنے گھر میں بیٹھ کرکام کرتا ہوں اور لوگوں کو واٹس ایپ کے ذریے ڈیل کرکے ان کو کوائن دیتا ہوں، میرے کام کرنے کا کوئی ٹائم مقرر نہیں ہے ، اپنے موبائل پر اس کام کو سرانجام دیتا ہوں،  کمپنی سے کمائی ہوئی رقم کا  گورنمنٹ کو ٹیکس بھی دیتا ہوں۔ میں کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:

1)  میں جو یہ کام کرتا ہوں اس سے کمائی ہوئی رقم حلال ہے یا حرام ہے؟

2) کیا میں ان کمائے ہوئے پیسوں سے کوئی  کاروبار کر سکتا ہوں؟

3)اگر میں کاروبار کرتا ہوں تو کیا اس کاروبار سے آنے والی آمدنی حلال ہوگی یا حرام؟

4) اگر میں اس آن لائن اپلیکیشن والی کمپنی کو درخواست دوں کہ مجھے کچھ رقم ادھار دی جائے، میں ادھار رقم سے ایک کاروبار شروع کروں اور ادھار مانگی گئی رقم کمپنی مجھ سے میرے 3 پرسنٹ کمائے ہوئے کمیشن سے کاٹتی جائے، تو یہ کاروبار حلال ہوگا یا حرام؟

مجھے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ایپلی کیشن والا کاروبار حرام ہے اور اس کاروبارسے کمائی  ہوئی رقم بھی حرام ہے۔ اب میں ایک حلال کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میرے پاس موجود رقم صرف اور صرف اس ایپلی کیشن والی ہے۔ میں نے ان کمائے ہوئے پیسوں سے ایک کاروبار شروع کیا تھا، اس کاروبار میں  کچھ چیزیں کسی کمپنی سے لے کر بازار میں فروخت کرتا تھا، مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ  یہ کاروبار بھی آپ کے لیے حرام ہے، کیونکہ اس کاروبار میں میں جو آپ نے رقم لگائی ہے وہ اس ایپلی کیشن سے کمائی ہوئی ہے۔ آپ حضرات سے درخواست ہے کہ مجھے یہ چیز بتائی جائے کہ کیا میں میں ان پیسوں سے کوئی حلال کاروبار کر سکتا ہوں اگر کر سکتا ہوں تو اس کا کیا طریقہ کارہوگا؟

] مذکورہ ایپلی کیشن کی تفصیلات اور استعمال کا طریق کار:

سائل کی زبانی بیان اور دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابقOyeTalk   نامی ایپلی کیشن بنیادی طور پر تفریح (entertainment) کے زمرے (category)  میں شمار ہوتی ہے، جس میں لائیو آڈیو سٹریمنگ، لائیو آڈیو کال، لائیو چیٹ روم، لائیو چیٹنگ، گروپ میٹنگ، لائیو گیمز اور دیگر افعال سر انجام پاتے ہیں۔

جس کا  طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ممبر (user) ایک چیٹ روم بناتا ہے اور ہوسٹنگ کرتا ہے (جو کہ زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں) باقی لوگ اس گروپ میں شامل ہو کر لائیو بات چیت، گیمز یا گانے گاتے ہیں۔ اس چیٹ روم میں شامل یوزرز انہی ہوسٹس کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان سے بات چیت کرنے کے لیے انہیں کوائن کی شکل میں تحفے (gifts) بھیجتے ہیں۔ یہ کوائن وہ اپنے پیسوں سے خرید کر ان لڑکیوں کو بھیجتے ہیں۔ اسی طرح ان چیٹ رومز میں گیم بھی کھیلی جاتی ہے، جس میں تین سیٹیں ہوتی ہیں، دو یا تین یوزرز مل کر ان کوائنز کو ان سیٹوں پر لگا لیتے ہیں، جس کا سیٹ نکلے تو کمپنی ان کو دو اعشاریہ نو فیصد نفع کے ساتھ اپنی کوائنز واپس کر دیتی ہے اور جو ہار جاتا ہے اس کے کوائنز اس کو واپس نہیں ملتے۔ ان کوائنز کی فراہمی کے لیے کمپنی کی جانب سے مختلف ایجنٹس مقرر ہوتے ہیں، جو ان یوزرز کو وہ کوائن فراہم کرتے ہیں۔ وہ یوزرز ان ایجنٹس کو رقم بھیجتے ہیں، جس کے عوض میں وہ ایجنٹس ان کو کوائنز لگا کر دیتے ہیں۔ کمپنی اپنے ان ایجنٹس کو ایک ویب سائٹ پورٹل کے ذریعے وہ کوائنز بھیجتے ہیں، پھر وہ ایجنٹس یہ کوائنز ایپلی کیشن یوزرز کو فروخت کرتے ہیں۔ ہر ماہ حساب وکتاب کر کے ان ایجنٹس کو اپنی تمام سیل کا تین فیصد   حصہ بطور تنخواہ دیا جاتا ہے۔[

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہمیں آپ جو کام کرتے ہیں (یعنی کمپنی کے ایجنٹ کے طور پر کمپنی کے فراہم کردہ کوائنز ایپ یوزرز کو بیچ کر ان سے رقم وصول کرنا) یہ دو وجہ سے ناجائز ہے: ایک یہ کہ جن کوائنز کی آپ خرید وفروخت کرتے ہیں، جب ان کا اس کے سوا کوئی استعمال موجود نہیں کہ ان کے ذریعہ ایپ یوزرز اجنبی لڑکیوں سے دووستی بناتے ہیں، تو یہ کوائنز کوئی قابل فروخت مال نہیں، لہذا ان کی خرید وفروخت باطل ہے، اور باطل خرید وفروخت کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ کوائنز ناجائز دوستی کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور اس کے باوجود آپ ایپ یوزرز کو یہ کوائنز فراہم کرنے میں واسطہ بنتے ہیں، تو یہ گناہ کے کام میں تعاون ہے، اور گناہ کے کام میں تعاون بھی شرعاً ناجائز ہے۔

لہذا جب ان دو وجہ سے آپ کا عمل ناجائز ہے تو اس عمل کی آپ جو مزدوری اور اجرت لیتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں آپ کے سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں:

  1. آپ جو سروس فراہم کرتے ہیں اس کی کمائی حرام ہے۔
  2. ناجائز طریقے سے کمائی گئی رقم کو اگر آگے کسی کاروبار میں لگانا (investment) جائز نہیں۔
  3. ناجائز طریقے سے کمائی گئی رقم کو اگر کسی جائز کاروبار میں صَرف (invest) کیا جائے، تو جب تک اس حرام رقم کے بقدر اپنی دوسری حلال رقم صدقہ نہیں کرے گا، تب تک دوسرے کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع بھی ناجائز ہوگا۔

ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی رقم سے قرضے کی ادائیگی جائز نہیں،ناجائز کمائی کو ثواب کی نیت کیے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
{وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]
(فقہ البیوع، المجلد الثانی، المبحث العاشر فی احکام المال الحرام، صفحہ 2105)
المال المغصوب  وما فی حکمہ مثل ما قبضہ الانسان رشوۃ او سرقۃ او بعقد باطل شرعا، لا یحل لہ الانتفاع بہ، ولا بیعہ ولا ھبتہ، ولا یجوز لاحد یعلم ذلک ان یاخذہ منہ شراء او ھبۃ او ارثا.  ویجب علیہ ان یردہ الی مالکہ، فان تعذر ذلک وجب علیہ ان یتصدق بہ عنہ. وان کان المال نقدا ، واشتری بہ شیئا بالرغم من عدم الجواز، فان اشتری بعین المال الحرام ، فلا یجوز الانتفاع بما اشتراہ حتی یودی بدلہ الی صاحبہ.اما اذا اشتری شیئا بثمن فی ذمتہ ثم  نقد الثمن من الحرام... الراجح انہ لا یجوز الا بعد اداء البدل الی المالک او التصدق.
(فقہ البیوع، المجلد الثانی، المبحث العاشر فی احکام المال الحرام، صفحہ 1064/5)
ومن کان موظفا فی البنک بھذا الشکل، فان راتبہ الذی یاخذ من البنک کلہ من الاکساب المحرمۃ. فان لم یکن لہ مال غیرہ دخل فی القسم الاول[القسم الاول ما کان محرما علی المرا لکونہ ملکا للغیر] ، فلایجوز  اخذ منہ ھبۃ او بیعا او شراء  او ارثا. ویجب الیہ ان یتوب الی اللہ تعالی ویتصدق بما کسب من البنک. وکتب فی الحاشیۃ: ولا یومر بالرد الی البنک، لان البنک عقد معہ اجارۃ فاسدۃ، واستخدمہ بحبس وقتہ، فلا یمکن ان یجتمع عندہ العوض والمعوض، وانما جاءت الحرمۃ فی الاجرۃ لکونھا عمل محظورشرعا، ولم یکن بطریق الظلم  علی الدافع. فلیس فیھا حق العبد، وانما تمحض حقا للّہ سبحانہ وتعالی، فوجب التصدق بہ. وفیہ کلام نفیس لابن القیم رحمہ اللہ تعالی فی زاد المعاد، فصل فی تحریم مھر البغی، فلیراجع.
زاد المعاد في هدي خير العباد (5/ 690)
[فصل ما تفعل الزانية بكسبها إذا قبضته ثم تابت]
فإن قيل: فما تقولون في كسب الزانية إذا قبضته، ثم تابت هل يجب عليها رد ما قبضته إلى أربابه، أم يطيب لها، أم تصدق به؟
قيل هذا ينبني على قاعدة عظيمة من قواعد الإسلام، وهي أن من قبض ما ليس له قبضه شرعا، ثم أراد التخلص منه، فإن كان المقبوض قد أخذ بغير رضى صاحبه، ولا استوفى عوضه رده عليه. فإن تعذر رده عليه، قضى به دينا يعلمه عليه، فإن تعذر ذلك، رده إلى ورثته، فإن تعذر ذلك، تصدق به عنه، فإن اختار صاحب الحق ثوابه يوم القيامة، كان له. وإن أبى إلا أن يأخذ من حسنات القابض، استوفى منه نظير ماله، وكان ثواب الصدقة للمتصدق بها، كما ثبت عن الصحابة - رضي الله عنهم.
وإن كان المقبوض برضى الدافع وقد استوفى عوضه المحرم، كمن عاوض على خمر أو خنزير، أو على زنى أو فاحشة، فهذا لا يجب رد العوض على الدافع؛ لأنه أخرجه باختياره، واستوفى عوضه المحرم، فلا يجوز أن يجمع له بين العوض والمعوض، فإن في ذلك إعانة له على الإثم والعدوان، وتيسير أصحاب المعاصي عليه.
الاختيار لتعليل المختار (3/ 61)
والفرع يحصل على صفة الأصل، والملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق.
احكام المال الحرام (ص: 1,2)
أقسام المال الحرام: والتّفصيل فيه أنّ المال الحرام أو الخبيث على أقسام:
القسم الأوّل ماكان محرّماً على المرأ لكونه ملكاً للغير
وهو مثلُ المال المغصوب الّذى هو مقبوضٌ بيد الغاصب متميّزٌ عن أملاكه الأخرى. وفى حُكمِه ما قبضه بأيّ نوعٍ من البيوع الباطلة.  ......أمّا فى بيان القسم الأوّل، نُعبّر عن جميع العقود الباطلة فيما يأتى بالمغصوب والّذى يقبض هذاالمال الحرام بالغاصب. وذلك لسهولة التّعبير. ويشمل هذا التّعبير كلَّ مالٍ حرامٍ لايملكه المرأ فى الشّرع، سواءٌ كان غصباً أو سرقةً أو رشوةً أو رباً فى القرض، أو مأخوذاً ببيعٍ باطل.
حكم هذا النوع
وإنّه حرامٌ للغاصب الانتفاعُ به أو التّصرّفُ فيه، فيجبُ عليه أن يرُدّه إلى مالكه، أوإلى وارثه بعد وفاتِه، وإن لم يُمكن ذلك لعدم معرفةِ المالك أو وارثه، أولتعذّر الرّدّ عليه لسببٍ من الأسباب، وجب عليه التّخلّصُ منه بتصدّقه عنه من غير نيّةِ ثوابِ الصّدقةِ لنفسه.

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

8/6/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب