021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈراپ شپنگ میں ملکیت اور قبضے کا حکم
71209خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

خلاصہ سوال:    آج کل شاپی فائی (Shopify) نام کی ویب سائٹ پر آن لائن اسٹور بنایا جاتا ہے جس کے ذریعے پاکستان سے باہر کوئی بھی پراڈکٹ بیچی جاتی ہے۔ طریقہ کار یوں ہوتا ہے کہ اس پر اسٹور بنا کر اس پر ایک اور ویب سائٹ "علی ایکسپریس (Ali Express)" کی پراڈکٹس لگا دیتے ہیں جس کی قیمت اصل قیمت سے کچھ اوپر مارجن رکھ کر متعین کرتے ہیں۔ مثلاً ایک ہینڈ فری AliExpress پر 10 ڈالر کی ہے تو شاپی فائی کے اسٹور پر اس کی قیمت 15 ڈالر رکھتے ہیں۔ جب کوئی شخص آرڈر دیتا ہے تو ہم AliExpress پر دس ڈالر ادا کر کے اس شخص کے پتے پر ڈائریکٹ بھجوا دیتے ہیں۔ شاپی فائی اپنی کمیشن رکھ کر باقی رقم ہمیں بھیج دیتا ہے۔ AliExpress کو اصل قیمت ہم نے پہلے اپنے پاس سے ادا کر دی ہوتی ہے۔

اب ہم نے جو پراڈکٹ AliExpress کی بیچی ہے اس پراڈکٹ کے مالک کو بیچنے والا بھی نہیں جانتا اور خریدنے والا بھی نہیں۔ خریدنے والا صرف اس آن لائن اسٹور کو جانتا ہے جہاں اس نے آرڈر کیا تھا۔

خلاصہ سوال:    آج کل شاپی فائی (Shopify) نام کی ویب سائٹ پر آن لائن اسٹور بنایا جاتا ہے جس کے ذریعے پاکستان سے باہر کوئی بھی پراڈکٹ بیچی جاتی ہے۔ طریقہ کار یوں ہوتا ہے کہ اس پر اسٹور بنا کر اس پر ایک اور ویب سائٹ "علی ایکسپریس (Ali Express)" کی پراڈکٹس لگا دیتے ہیں جس کی قیمت اصل قیمت سے کچھ اوپر مارجن رکھ کر متعین کرتے ہیں۔ مثلاً ایک ہینڈ فری AliExpress پر 10 ڈالر کی ہے تو شاپی فائی کے اسٹور پر اس کی قیمت 15 ڈالر رکھتے ہیں۔ جب کوئی شخص آرڈر دیتا ہے تو ہم AliExpress پر دس ڈالر ادا کر کے اس شخص کے پتے پر ڈائریکٹ بھجوا دیتے ہیں۔ شاپی فائی اپنی کمیشن رکھ کر باقی رقم ہمیں بھیج دیتا ہے۔ AliExpress کو اصل قیمت ہم نے پہلے اپنے پاس سے ادا کر دی ہوتی ہے۔

اب ہم نے جو پراڈکٹ AliExpress کی بیچی ہے اس پراڈکٹ کے مالک کو بیچنے والا بھی نہیں جانتا اور خریدنے والا بھی نہیں۔ خریدنے والا صرف اس آن لائن اسٹور کو جانتا ہے جہاں اس نے آرڈر کیا تھا۔

دوسری بات جو بیچنے والا ہے اس کے پاس بظاہر اسٹاک موجود نہیں ہے۔ بس اس کے آن لائن اسٹور سے آرڈر ہو رہے ہیں اور اس سے کچھ منافع کمایا جا رہا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟ یہ شریعت کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ جس چیز کو فروخت کیا جا رہا ہے، فروخت کرنے والا فروخت سے قبل اس کا مالک بن چکا ہو اور اس پر قبضہ بھی حاصل کر چکا ہو۔ اس اصول کی روشنی میں سوال میں مذکور صورت میں اگر آرڈر دینے کو حتمی بیع سمجھا جاتا ہے تو  چونکہ چیز فروخت کرنے سے قبل آپ نے خریدی نہیں ہوتی اور آپ اس کے مالک نہیں ہوتے لہذا آپ کا آگے بیچنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔اس کے دو متبادل طریقے آپ اختیار کر سکتے ہیں جو شرعاً جائز ہیں:

1.     کسٹمر کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ یہ آرڈر فی الحال بیع (خرید و فروخت) کا وعدہ ہے اور یہ چیز آپ اسے خرید کر بھیجیں گے اور حتمی بیع اس وقت ہوگی جب وہ یہ چیز وصول کرے گا۔  اس کے بعد مطلوبہ چیز خرید کر  اور اپنے قبضے میں لے کر کسٹمر کو بھیج دیں۔

2.     آپ جن سے لیتے ہیں ان سے یہ طے کر لیں کہ میں کسٹمر کو آپ کی جانب سے فلاں چیز اتنی قیمت میں فروخت کروں گا اور آپ مجھے متعین رقم یا متعین فیصد کمیشن ادا کریں گے۔

حوالہ جات
(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد۔۔۔.
(بدائع الصنائع، 5/147، ط: دار الکتب العلمیۃ)
 
للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا وكذلك يجوز له أن يهبه (انظر المادة - 845) ، وقد جوزه الشيخان استحسانا لأن ركن البيع أن يصدر من أهله أن يكون البائع والمشتري مميزين عاقلين وأن يقع في محله أي في مال متقوم وبما أن الهلاك نادر في العقار ولا اعتبار للنادر فليس في بيع العقار قبل القبض غرر الانفساخ كما في بيع المنقول.
(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، 1/236، ط: دار الجیل)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 9/ جمادی الثانیۃ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب