021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پب جی گیم کھیلنے کا حکم
71315جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

سوال یہ ہے کہ ایک ادارے  نے پب جی کھیلنے والوں کو اسلام سے خارج کہا ۔بندہ کی خود کی تحقیق  ہے کہ جس سوال کے جواب میں یہ فتوی دیا گیا ہے ایسی کوئی بھی چیز بندے کی نظر سے نہیں گزری اس تحقیق میں بندے کی تحقیق بھی جامع اور تفصیلی ہے ۔میں نے اس گیم کو  ڈیڑھ سال سے کھیل رہا ہوں میری نظر میں ایسی کوئی خرابی نہیں آئی جیسے کہ بتوں سے مدد مانگنا یا  اسلام کے خلاف ۔اسی طرح کچھ عرصہ پہلے اسی گیم کی کچھ تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جو کہ سراسر غلط اور جھوٹی تصویریں تھیں ۔ ہاں اس گیم میں ایک خرابی یہ ہے کہ یہ وقت کا ضیاع کرتی ہے بہت مگر ہر کام کو بہتر طریقے سے کرنے کے امکان موجود ہوتے ہیں۔ بندہ بذات خود چالیس منٹ گیم کھیلتا ہے اور باقی فرائض کی پابندی کرتا ہے۔ آپ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیے۔ افعال یا فحاشی ہو تواس کی کم مقدار کا کھیلنا بھی جائز نہ ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی ادارے کےفتوی پر اسی ادارے سے استفسار کرنامناسب ہے۔ البتہ اصولی جواب یہ ہے کہ شرعاً کسی کھیل کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو، اور اس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ ہو، محض لہو ولعب پر مشتمل نہ ہو۔ لہذا اگر کوئی کھیل ان مفاسد پر مشتمل ہو تو اس کاکھیلنا جائز نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کوئی کھیل جسم کی ورزش یا طبیعت کی تکان دور کرنے کےلیے ہو، اور ان میں اس قدر غلو بھی نہ کیا جائےکہ اسی کو مشغلہ بنا لیا جائے، اوران سے دیگر دینی یا دنیوی اہم امور میں غفلت نہ ہوتی ہو، تو ایسا کھیل شرعاًمباح ہے۔اور اگر کسی کھیل میں شرکیہ افعال یا فحاشی ہو تواس کی کم مقدار کا کھیلنا بھی جائز نہ ہوگا۔

حوالہ جات
إن اللہو علی أنواع: لھو مجرد، ولھو فیہ نفع فائدۃ ولکن ورد الشرع بالنھی عنہ، ..... ولھو فیہ فائدۃ مقصودۃ ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدۃ دینیۃ واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدۃ المطلوبۃ لا بقصد التلھی،، فھذہ خمسۃ أنواع لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحۃ اللھو فی شیئ، بل إباحۃ ما کان لھواً صورۃ ثم خرج عن اللھویۃ بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھواً.(أحکام القرآن للتھانوی: 199/3)
فالضابط     في  هذا ..... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، و ليس له غرض صحيح مفيدفي المعاش ولا فی المعاد حرام أو مكروه تحريماً. . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخری، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه.(تکملة فتح الملهم: 4/435)

راجہ باسط علی

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

17/جمادی الثانیہ/1442ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ باسط علی ولد غضنفر علی خان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب