71510 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
شریعت اور قانون کی روشنی میں وراثت کب اور کیسے تقسیم کی جائے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
میراث کی تقسیم کے حوالے سے بہتر یہ ہے کہ انتقال کے بعد جتنی جلد ہوسکے مرنے والے کا مال اس کے ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے،تاکہ ہر وارث کو اس کا شرعی حق مل جائے اور ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی کا اندیشہ نہ رہے،البتہ اگر کسی معقول عذر کی وجہ سےتمام ورثہ باہمی رضامندی سے تقسیم کو مؤخر کرنا چاہتے ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں،بشرطیکہ تمام ورثہ عاقل بالغ ہوں،کیونکہ نابالغ کی اجازت شرعاً معتبر نہیں ہے۔
نیز تقسیم کی تاخیر کی صورت میں مشترکہ جائیداد کے استعمال،کاروبار اور منافع کے حوالے سے باہمی رضامندی سے تمام معاملات طے کرلیے جائیں،تاکہ بعد میں اختلاف اور جھگڑے کی نوبت نہ آئے۔
بقیہ کن رشتہ داروں کو ملے گا اور کن کو نہیں اور کسے کتنا حصہ ملے گا،یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جسے یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا،آپ نے اگر کسی خاص صورت کے حوالے سے پوچھنا ہے تو ورثہ کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال پوچھ لیں۔
حوالہ جات
۔۔۔۔
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
21/جمادی الثانیہ1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |