03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ ترکے سے بنائی گئی دولت کا حکم
71512میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

باپ کی وفات کے بعد باپ کے مال سے بنائی جانے والی دولت،زیورات اور اثاثے کیا تمام بہن بھائیوں میں برابر تقسیم ہوں گے یا صرف بنانے والے بیٹے اس کے حقدار ہوں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر ان ورثہ نے یہ کاروبار بقیہ ورثہ کی اجازت اور رضامندی سے کیا تو اس کاروبار کے نفع و نقصان میں دیگر ورثہ بھی شریک ہوں گے،البتہ جن بھائیوں نے کاروبار کیا ہے وہ اس نفع میں سے عرف کے مطابق اپنی مناسب اجرت وصول کرسکتے ہیں،جسے درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا:

ا۔یہ اندازہ لگایا جائے کہ اگر کوئی ملازم اس قسم کا کام کرتا تو اس کی ماہانہ یا سالانہ تنخواہ کتنی ہوتی۔

۲۔یہ اندازہ کم از کم دو ایسے غیر جانبدار لوگوں سے لگوایا جائے،جنہیں اس کاروبار کی نوعیت کا علم ہو،مارکیٹ سے وابستہ لوگ ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔

۳۔یہ بھی مدنظر رہے کہ بھائی اس کاروبار سے اپنے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی وصول کرتے رہے ہیں،اس لیے انہیں بھی اس مجموعی تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔

۴۔اتنی تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے دیگر ورثہ کا اکثر حصہ ختم ہوجائے اور ان کے حصے میں کچھ باقی نہ رہے،یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔

اور اگران بھائیوں نے یہ کاروبار دیگر ورثہ کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کیا تو پھر حاصل ہونے والا نفع صرف کاروبار کرنے والے ورثہ کی ملک ہے،لیکن ان کے لیے اس نفع میں سے صرف اتنی مقدار کا استعمال جائز ہے جو سرمایہ میں موجود ان کے حصے سے حاصل ہوا ہے،دیگر ورثہ کے حصوں سے حاصل ہونے والے نفع کواستعمال میں لانا جائز نہیں ہے،بلکہ اسے یا تو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیں یا دیگر ورثہ کو ان کے حصوں کے مطابق دے دیں۔

حوالہ جات
"العناية شرح الهداية "(9/ 330):
"الغاصب إذا تصرف في المغصوب أو المودع في الوديعة وربح فيه لا يطيب له الربح عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، خلافا لأبي يوسف - رحمه الله - وقد مر في الدلائل. وجوابهما في الوديعة أظهر لما ذكرنا أنه لا يستند الملك إلى ما قبل التصرف لانعدام سبب الضمان، فكان التصرف في غير ملكه مطلقا فيكون الربح خبيثا".
"مجمع الضمانات "(ص: 130):
"ولو استعمل المغصوب بأن كان عبدا فأجره فالأجرة له، ولا تطيب له فيتصدق بها.
وكذا لو ربح بدراهم الغصب كان الربح له، ويتصدق به، ولو دفع الغلة إلى المالك حل للمالك تناولها كما في الهداية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب