021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باپ کے ساتھ کاروبار میں معاون ورثہ کا مرحوم کےتمام اثاثہ جات پر دعوی کرنا
71513میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہم نے محنت کرکے کمایا ہے تو ہمارا ہے،مال وراثت میں اس دعوی ملکیت کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہے؟

تنقیح:

سائل سے فون پر تنقیح سے معلوم ہوا کہ پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ سائل کے دادا کا کاروبار تھا،اس کے تایا ان کے ساتھ معاون تھے،اب دادا کی وفات کے بعد ان کا دعوی ہے کہ چونکہ کاروبار میں دادا کے ساتھ محنت انہوں نے کی ہے،اس لیے یہ سارا میرا ہوگا،بقیہ ورثہ کا اس میں حق نہیں ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ جن بیٹوں کے ذرائع آمدن والد سے الگ ہوں اور وہ اپنا ذاتی کاروبار یا ملازمت کرکے کماتے ہوں تو ان کے پاس جو کچھ ہے وہ تو ان کی ذاتی ملکیت ہے،لہذا ان کا یہ دعوی شرعاً درست ہوگا،لیکن جو بھائی اپنے والد کے ساتھ ان کے کاروبار میں معاون ہوں یعنی ان کا سرمایہ کاروبار میں شامل نہ ہو،بلکہ سارا کا سارا سرمایہ والد کا ہوتو ایسی صورت میں اس کاروبار کی ساری آمدن اور اس آمدن سے خریدی جانے والی جائیداد وغیرہ سب والد کی ملکیت شمار ہوتی ہے۔

چونکہ مذکورہ صورت میں بھی بیٹے مرحوم کے کاروبار میں ان کے ساتھ بطورِ معاون کام کرتے رہے،اس لیے ان کا یہ دعوی شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے،البتہ ان کے خدمات کی اجرت کے حوالہ سے وہی تفصیل ہے ہوگی جو گزشتہ سوال کے جواب میں ذکر کردی گئی ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (4/ 325):
" الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ...
وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير".
 
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 17):
"وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/جمادی الثانیہ1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب