021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالت کی جانب سے یکطرفہ طور پر جاری کی گئی خلع کی ڈگری کا حکم
71829طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

گزارش ہے کہ میں تنویر احمد ولد شبیر احمد ہوں،میری شادی تیرہ سال پہلے انعم تنویر ولد سید ظفر احمد سے ہوئی،شروع کے چھ ماہ گھریلو ناچاقی کی وجہ سے مجھے الگ گھر لینا پڑا،اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بیوی کا علاج کرایا تو پتہ چلا کہ بیوی ماں نہیں بن سکتی،میری بیوی کے بھائی نے اپنا بچہ جو ایک دن کا تھا ہمیں دے دیا جو اس وقت سات سال کا ہے،میں بیوی اور بچے کی ہر ضرورت بھرپور طریقے سے اداء کرنے کی کوشش کرتا رہا اور بیوی کو ماہانہ خرچہ بھی دیتا تھا،بیوی اور بچے سے مجھے بہت پیار تھا۔

مگر پچھلے چھ ماہ سے بیوی کا رویہ اچھا نہیں ہے،ایک دن بیوی لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئی اور کچھ عرصے بعد مجھے بتایا کہ میں نے کورٹ سے خلع لی ہے اور مفتی سے فتوی بھی لیا ہے،مجھے اس بات کا علم نہیں تھا،جبکہ میں ایسا بالکل بھی نہیں چاہتا،لیکن وہ کورٹ کے پیپر اور طلاق نامہ پر زبردستی میرے دستخط لینا چاہتی ہے،میں نے اس سے کہا جب تم کورٹ سے خلع لے لی ہے اور مفتی سے فتوی بھی لے لیا ہے تو پھر میرے دستخط کی تو کوئی حیثیت نہیں رہی۔

اب آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا کورٹ سے خلع لینے کے بعد اب بھی میرے دستخط کی ضرورت ہے اور ان حالات میں بچہ کس کے پاس ہوگا،قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

تنقیح:

سائل سے معلوم ہواہے کہ وہ بیوی کے تمام حقوق کی ادائیگی کرتا رہا ہے،البتہ کچھ دنوں سے وہ اعصابی کمزوری کا شکار ہے،جس کی وجہ سے سیکس کے حوالے سے کچھ کمزوری پیدا ہوئی تھی،لیکن بالکل ناکارہ نہیں تھااور اس کی وجہ اس کے آنتوں میں زخم کا ہونا ہے،لیکن شروع میں مرض کی تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے دواؤں سے کوئی افاقہ نہیں ہورہا تھا اور اب تشخیص ہونے کے بعد بہتری آرہی ہے۔

نیز بچے نہ ہونے کی وجہ بیوی میں تھی کہ شادی سے پہلے اس کی رسولی کا آپریشن ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے اس کی بچہ دانی نکال لی تھی،لیکن شادی سےپہلے لڑکی والوں نے اس عیب کا لڑکے کو بتایا نہیں،بعد میں جب بچے نہیں ہوئے تو اس حوالے سے علاج کی غرض سے جانے پر یہ انکشاف ہوا۔

سوال میں جس فتوی کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے حوالے سے سائل کا کہنا تھا کہ کئی دفعہ مطالبے کے باوجود بیوی نے وہ فتوی دکھایا نہیں،بلکہ صرف زبانی کلامی دعوے کرتی رہی ہے۔

بچے کے حوالے سے سائل کا کہنا تھا کہ وہ ایک دن کا تھا جب اسے ان میاں بیوی نے گود لیا تھا،اب وہ سات سال کا ہے،اس دوران اس نے اپنے حقیقی بیٹے کی طرح اس کے سارے اخراجات برداشت کیے،بچہ بھی اس سے والد کی طرح محبت کرتا ہے،لیکن اب بیوی اسے اپنے ساتھ لے گئی ہے اور شوہر کو اس سے ملنے بھی نہیں دیتی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر استفتاء میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہے اور عورت نے بلا کسی معقول عذر کے عدالت سے خلع کی درخواست کی ہے،جس پر عدالت نے حقیقی صورت حال کی تفتیش کیے بغیر یکطرفہ طور پربلاعوض خلع کی ڈگری جاری کردی ہے تو شریعت میں ایسی ڈگری کا کوئی اعتبار نہیں ہے،کیونکہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی شرط ہے اور فسخِ نکاح کے لیے کسی شرعی معقول عذر کا ہونا،چونکہ مذکورہ صورت میں نہ شوہرخلع دینے پر رضامندہے اور نہ ہی فسخِ نکاح کا کوئی معقول سبب موجودہے،اس لیےآپ دونوں میاں بیوی کا نکاح ختم نہیں ہوا اور بدستور وہ عورت آپ کے نکاح میں ہے اور جب تک آپ خلع کے کاغذات پر دستخط نہیں کریں گے یا اسے طلاق نہیں دیں گے وہ آپ کے نکاح میں رہے گی۔

آپ کی بیوی  پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس اقدام پر توبہ واستغفار کرے،کیونکہ احادیث مبارکہ میں بلاضرورت اس  طرح طلاق کے مطالبے پرسخت وعیدیں آئی ہیں،چنانچہ ایسی عورتوں کو منافق قرار دیا گیا ہے اور ایک روایت میں آتا ہے کہ جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق مانگی اس پرجنت کی خوشبو بھی حرام ہوگی۔

جہاں تک بات ہے بچے کی تو چونکہ وہ بیوی کے بھائی نے اسے دیا ہے،اس لیے بچہ اسی کے پاس رہے گا،البتہ بیوی کے لیے آپ کی اس سےملاقات میں رکاوٹ ڈالنا اخلاقی طور پردرست نہیں۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري "(7/ 47):
"عن عكرمة، عن ابن عباس رضي ﷲ عنهما، قال: جاءت امرأة ثابت بن قيس بن شماس إلى النبي صلى ﷲ عليه وسلم، فقالت: يا رسول ﷲ!ما أنقم على ثابت في دين ولا خلق، إلا أني أخاف الكفر، فقال رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم: «فتردين عليه حديقته؟» فقالت: نعم، فردت عليه، وأمره ففارقها".
"الدر المختار " (3/ 439):
" الخلع (هو) لغة الإزالة، واستعمل في إزالة الزوجية بالضم وفي غيره بالفتح. وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح) خرج به الخلع في النكاح الفاسد وبعد البينونة والردة فإنه لغو كما في الفصول  (المتوقفة على قبولها) خرج ما لو قال: خلعتك - ناويا الطلاق - فإنه يقع بائنا غير مسقط للحقوق لعدم توقفه عليه، بخلاف خالعتك بلفظ المفاعلة، أو " اختلعي " بالأمر ولم يسم شيئا فقبلت فإنه خلع مسقط، حتى لو كانت قبضت البدل ردته خانية. (بلفظ الخلع) خرج الطلاق على مال فإنه غير مسقط فتح، وزاد قوله (أو ما في معناه) ليدخل لفظ المبارأة فإنه مسقط كما سيجيء".
"المبسوط للسرخسي" (6/ 173):
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد".
"سنن الترمذي " (3/ 485):
 "عن ثوبان، أن رسول ﷲ صلى ﷲ عليه وسلم قال: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير بأس فحرام عليها رائحة الجنة»: «هذا حديث حسن»".
"سنن الترمذي " (3/ 484):
 "عن ثوبان، عن النبي صلى ﷲ عليه وسلم قال: «المختلعات هن المنافقات»".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب