021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام قومہ میں ہو تو رکوع میں شامل ہونے کا حکم
71973نماز کا بیاننماز کےمتفرق مسائل

سوال

بعض مرتبہ امام قومہ کے لیے مقتدی حضرات سے پہلے کھڑا ہو جاتا ہے اور کھڑے ہو کر تسمیٕع کہتا ہے، اس دوران جو مقتدی تکبیرکہہ کر رکوع میں شامل ہو جاتا ہے، جبکہ امام کھڑا ہو چکا ہوتا ہے اور مقتدی حضرات ابھی رکوع میں ہوتے ہیں؟ تو کیا اس کی یہ رکعت مکمل شمار ہو گی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب امام رکوع سے کھڑا (کھڑا ہونے کا مطلب امام کا قومہ میں سیدھا کھڑا ہونا، اگر امام کے رکوع سے سر اُٹھانے سے پہلے پہلے ایک لمحہ  کے لیےبھی مقتدی نے امام کو رکوع میں پالیا ا گرچہ ایک تسبیح سے کم ہو تو وہ اس رکعت کو پانے والا سمجھا جائےگا) ہو جائے تو اس کے بعد مقتدی کے رکوع میں شریک ہونے کی صورت میں یہ  رکعت شمار نہیں ہوگی، کیونکہ  فقہائے کرام رحمہم اللہ نے  امام کو رکوع کی حالت میں پانے کی صورت میں مکمل رکعت پانے کا حکم لگایا گیا ہے، لہذا اگر امام رکوع سے کھڑا ہو  چکا ہو تو صرف مقتدیوں کے ساتھ رکوع میں شریک ہونےسے یہ رکعت شمار نہیں ہو گی، کیونکہ رکعت پانے کے لیے  اس شخص پر امام کی اتباع اور معیت میں رکوع کرنا شرط ہے، جو ایسی صورت میں نہیں پایا گیا، اس لیے یہ رکوع کالعدم سمجھا جائے گا،  اسی طرح اگر امام رکوع سے اُٹھ رہا ہو اور مقتدی رکوع میں جا رہا ہو تو  بھی اس رکعت کو دہرانا ہوگا، لہذا امام کی حالت کو دیکھ کر رکوع میں شریک ہونا چاہیے۔

یہ بھی واضح ر ہے کہ امام کے لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ کھڑے ہو کر تسمیع نہ کہے، بلکہ رکوع سے سر اٹھاتے ہی تسمیع کہنا شروع کر دے، تاکہ دوران انتقال تسمیع کا صیغہ مکمل ہو جائے اور   اس صورت میں مسبوق حضرات کو امام کی حالت کا علم بھی ہو جائے گا، نیز کھڑے ہونے کے بعد تسمیع  وغیرہ کہنے کو فقہائے کرام رحمہم اللہ نے مکروہ قرار دیا ہے،  کیونکہ تسمیع اور تکبیراتِ انتقال کا مقصد نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونا ہوتا ہے، لہذا امام یا مقتدی کا دوسرے رکن میں منتقل ہونے کے بعد تسمیع یا تکبیرِانتقال کہنا خلافِ سنت ہے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 82):
"قوله: وإن أدرك إمامه راكعا فكبر ووقف حتى رفع رأسه لم يدرك الركعة) خلافا لزفر هو يقول أدرك الإمام فيما له حكم القيام ولنا أن الشرط هو المشاركة في أفعال الصلاة ولم يوجد لا في القيام ولا في الركوع وذكر قاضي خان أن ثمرة الخلاف تظهر في أن هذا عنده لاحق في هذه الركعة حتى يأتي بها قبل فراغ الإمام وعندنا هو مسبوق بها حتى يأتي بها بعد فراغ الإمام وأجمعوا أنه لو انتهى إلى الإمام وهو قائم فكبر ولم يركع مع الإمام حتى ركع الإمام ثم ركع أنه يصير مدركا لتلك الركعة وأجمعوا أنه لو اقتدى به في قومة الركوع لم يصر مدركا لتلك الركعة اهـ".
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 185) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
لو أدرك الإمام في غير الركوع يكبر للافتتاح ويثني، ثم يتابع الإمام في أي حال كان لما روى معاذ أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «إذا أتى أحدكم الإمام على حال فليصنع كما يصنع الإمام ومن أدرك الركوع فقد أدرك الركعة» رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي عليه عمل أهل العلم.اه.
الفتاوى الهندية (1/ 74) دار الفكر، بيروت:
(ويركع حين يفرغ من القراءة وهو منتصب) هو المذهب الصحيح. كذا في الخلاصة في الجامع الصغير ويكبر مع الانحطاط. كذا في الهداية قال الطحاوي وهو الصحيح كذا في معراج الدراية فيكون ابتداء تكبيره عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للركوع. كذا في المحيط۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق (2/ 34) دار الكتاب الإسلامي،بيروت:
(قوله وكره عبثه بثوبه وبدنه) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأن يترك التسبيحات في الركوع والسجود وأن ينقص من ثلاث تسبيحات في الركوع والسجود وأن يأتي بالأذكار المشروعة في الانتقالات بعد تمام الانتقال وفيه خللان تركها في موضعها وتحصيلها في غير موضعها ذكره في مواضع متفرقة من مكروهات الصلاة۔
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 129) المكتبة العصرية:
ويكره أن يأتي بالأذكار المشروعة في الانتقال بعد تمام الانتقال لأن فيه خللين تركه في موضع وتحصيله في غيره۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 351) دار الكتب العلمية بيروت:
قوله: "بعد تمام الإنتقال" كأن يكبر للركوع مثلا بعد الانتهاء إلى حد الركوع أو يقول سمع الله لمن حمده بعد تمام القيام والسنة أن يكون ابتداء الذكر عند ابتداء الإنتقال وانتهاؤه عند انتهائه وإن خالف ترك السنة قال في الأشباه كل ذكر فات محله لا يؤتى به في غيره۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

5/رجب المرجب 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب