021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
افغانستان کی اسلامی عدالت کا تفریقِ نکاح سے متعلق فیصلہ
71875طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

فیصلے کی تاریخ اور نمبر:  نمبر: (883)۔ تاریخ: 21-10-1399 ھ ۔

           مدعیہ بالاصالہ: صفیہ بنت محمد ابراہیم ولد ملا محمود۔      مستقل پتہ: صوبہ لوگر، افغانستان۔

      رہایش: کابل، ناحیہ 12۔

      مدعی علیہ بالاصالہ: حبیب شفیع ولد محمد رحیم ، جو صفیہ بنت محمد ابراہیم کا شوہر ہے۔

عدالت نے مدعی علیہ حبیب شفیع کو طلب کیا، مگر وہ نہ آیا، اس لیے عدالت نے  عطاءاللہ قیومی کو مدعی علیہ  حبیب شفیع کی جگہ وکیلِ مسخر مقرر کیا، تا کہ وه حبیب شفیع کے حقوق کا دفاع کرے۔

 دعوے کا موضوع: ضرر کی وجہ سے زوجین کے درمیان  مطالبہ ٔتفریق۔

      مدعیہ بالاصالہ نے درج ذیل دعوی کیا:

    میں نے 8 سال پہلے حبیب شفیع کے ساتھ عقد نکاح کیا،  ہمارے ازدواج کا ثمرہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ازدواجی زندگی کے اتنے عرصے میں صرف ایک دن کے علاوہ باقی پوری زندگی مار پیٹ  اور گالم گلوچ سےبھری ہوئی تھی۔ اس حوالے سے حبیب شفیع  نےخط و کتابت میں مار پیٹ اور بد سلوکی کا اقرار جرگے کے حضور میں کیا ہے۔      اس حالت کو مزید برداشت کرنے کی ہمت نہیں رہی۔ اس ليے عدالت سے حبیب شفیع کے ساتھ عقد نکاح کی تفریق  کی طلبگار ہوں۔

      مدعی علیہ بالنیابہ (عطاءاللہ قیومی) نے مدعیہ بالاصالہ کے خط کا جواب یوں دیا:

      مدعیہ نے مار پیٹ کے حوالے سے کوئی اسناد پیش نہیں کی ہیں، اسی طرح ڈاکٹر کا نظریہ اور رپورٹ بھی موجود نہیں ہے،مدعیہ نے مار پیٹ اور گالم گلوچ کی کوئی علت ذکر نہیں کی ہے، لہذا میں اس دعوے کو رد کرنے کا طلبگار ہوں۔

        مدعی علیہ بالنیابہ کے مدعیہ کے دعوی کو نہ ماننے پر محکمہ نے مدعیہ بالاصالہ سے چھ افراد مخبرین(ان گواہوں کو مخبرین اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ گھریلومعاملات میں عام طور پرعینی گواہ نہیں ہوتے، مگرحالات کی ان کو خبر ہوتی ہے) پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ چھ افراد حاضر ہوگئے،  جن کے نام یہ ہیں: 1- محمد ادریس ولد محمد اسحاق۔ 2- روح اللہ ولد صدیق اللہ۔ 3- خان آغا ولد مرزا احمد۔ 4- میوند ولد سراج الحق۔ 5- جاوید احمد ولد میر آقا۔ 6- محمد لطیف ولد محمد کریم۔    ان چھ افراد نے  عدالت  اور جانبین کے حضور میں مدعیہ کے دعوے کے مطابق عدالت میں بطورِ گواہ بیان دیا کہ واقعتاً مدعیہ کا شوہر مدعیہ کو مارتا پیٹتا ہے، جوکہ مجلسِ قضاء میں موجود جج حضرات  کو قابل قبول ہوا اور اس پر وکیلِ مسخر نے کوئی جرح نہیں کی، چنانچہ مخبرین کے اخبار اور شہادت کی بنیاد پر محکمے نے یہ حکم صادر کیا:

 نصِ حکم:

      ہم احوال شخصیہ کے ابتدائی محکمہ کی ریاست کے دیوان کی اتفاق رائے پر ، قضائی جلسے میں، جو کہ 7-5-1399 ھ ش تاریخ کو منعقد ہوا) دونوں جانبین (مدعیہ حقیقی اور مدعا علیہ حکمی) کے حضور میں مذکور دلائل کی بنیاد پر مدنی محاکمات کے اصولوں کے مطابق، ضرر کی وجہ سے تفریق اور زوجیت کے رابطے کے انحلال کا ،آپ صفیہ بنت محمد ابراہیم  اور حبیب شفیع ولد محمد رحیم (مسخر عنہ،جس کا وکیلِ مسخر عطاءاللہ قیومی بن گیا ہے) کے درمیان حکم صادر کیا اور ہم نے آپ كے وکیل مسخرسے کہا کہ فیصلہ کے بعد سےآپ کے مسخر عنہ (حبیب شفیع) سے زوجیت کا رابطہ  ختم ہو گیا ہے اور قانون مدنی کے مطابق ضرر کی وجہ سے تفریق ایک طلاق بائن کے حکم میں ہوتی ہے۔ مذکورہ مدعیہ عدت پوری کرنے کے بعد اپنے نفس کا اختیار رکھتی ہے۔

 عدالت عظمی / سپریم کورٹ کے فیصلے کا نص:

مذکورہ بالا  فیصلے کی عدالتِ عظمی نے بھی  درج ذيل الفاظ ميں تائید کی:   

 "عدالت عظمی کے حقوق عامہ اور احوال شخصیہ کے دیوان ، اوپر مذکور  جریان اور گزارش کو دیکھ  کر دونوں محکموں کے فیصلے کو تائید کرتاہے۔"

سوال یہ ہے کہ کیا عدالتِ افغانستان کا مذکورہ فیصلہ مدعی علیہ کی عدم موجودگی میں درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں عدالت نے مدعی علیہ کے عدالت میں حاضر نہ ہونے پر فقہائے احناف رحمہم اللہ کے موقف کے مطابق مدعی علیہ کی طرف سے اس کے حقوق کے تحفظ کے لیے وکیلِ مسخّر (یہ وہ شخص ہوتا ہے جو حنفیہ کے نزدیک مدعی علیہ کی عدم موجودگی میں اس کے حقوق کے تحفظ کے لیے قاضی کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے) مقرر کیا تھا، جس کی موجودگی میں عدالت نے مدعیہ کا دعوی اور اس پر گواہوں کے بیانات کی سماعت کی اور مدعی علیہ کی طرف سے اس کے وکیلِ مسخّر نے ان گواہان پر کوئی جرح وغیرہ نہیں کی، جس کی بنیاد پر عدالت نے زوجین کے درمیان تفریقِ نکاح کا فیصلہ جاری کیا، جو کہ شرعاً ایک طلاقِ بائن کے حکم میں ہوتا ہے، لہذا عدالت کا مذکورہ فیصلہ شرعی نقطہٴ نظر سے درست اور نافذ ہے اور فریقین کے درمیان فیصلہ کی تاریخ سے نکاح ختم ہو چکا ہے اور مدعیہ عدت کے گزارنے کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 365، المادة :1791) قديمي كتب كانه ، كراچي:
الوكيل المسخر هو الوكيل المنصوب من قبل القاضي للمدعى عليه الذي لم يمكن إحضاره للمحكمة.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 286) دار الفكر،بيروت:
 (فإن شهدوا على خصم حاضر حكم بالشهادة) يريد بالخصم الحاضر من كان وكيلا من جهة المدعى عليه أو مسخرا وهو من ينصبه القاضي وكيلا عن الغائب ليسمع الدعوى عليه، وإلا لو أراد بالخصم المدعى عليه لم يبق حاجة إلى الكتاب إلى القاضي الآخر، لأن الخصم حاضر عند هذا القاضي وقد حكم عليه (و) إذا حكم (كتب بحكمه) إلى قاضي البلد التي فيها الموكل۔
لسان الحكام (ص: 228) البابي الحلبي – القاهرة:
وفي المحيط وسائر الفتاوى إذا ادعى انسان على آخر والقاضي يعلم أنه مسخر لا شيء عليه لا يجوز ولو حكم عليه لا يجوز أيضا وتفسير المسخر أن ينصب القاضي وكيلا عن الغائب ليسمع الخصومة عليه وكذلك لو أحضر رجل غيره عند القاضي ليسمع الخصومة عليه والقاضي يعلم أن المحضر ليس بخصم فإنه لا يسمع الخصومة عليه وإنما يجوز نصب الوكيل عن خصم اختفى في بيته ولم يحضر مجلس الحكم بعد ما بعث القاضي أمناءه إلى داره ونودي على باب داره۔
المبسوط للسرخسي (5/ 102) دار المعرفة – بيروت:
 
   
وإن اختارت الفرقة أمر القاضي الزوج بأن يطلقها، فإن أبي فرق القاضي بينهما وكانت تطليقة بائنة عندنا۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

5/رجب المرجب 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب