72060 | وقف کے مسائل | مسجد کے احکام و مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد کی زمین اور قبرستان کی زمین ایک ساتھ ہیں۔ہم مسجد کی زمین کی قیمت دے کر قبرستان کی زمین میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔کیا ایساکرنا ٹھیک ہے؟ اگر نہیں تو کوئی اور طریقہ بتادیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جوزمین مسجد کے لیے وقف کر دی گئی ہو،تو وقف تام ہونے کے بعد اس کی خریدو فروخت جائز نہیں۔چاہے اصل نماز کی جگہ ہو یا وضو خانے وغیرہ کی اضافی جگہ ہو۔قبرستان کے لیے کہیں اور زمین خرید سکتے ہیں۔البتہ اگر کسی نے زمین مسجد کو ہبہ کی،یا مسجد کی ضروریات کے لیے زمین خریدی گئی ہو،تو وہ زمین مسجدکے وقف کی مملوکہ کہلاتی ہے۔ایسی زمین کی خریدوفروخت جائز ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ تعالی :الوقف… لا يباع، ولا يوهب، ولا يورث.(بدائع الصنائع:6/218)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(الوقف…عندهما :هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالی ،وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ،ولا يورث عنه ،وعليه الفتوى.
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالی :قوله: )فيلزم): تفريع على ما أفاده التعريف من خروج العين عن ملك الواقف؛ لثبوت التلازم بين اللزوم والخروج عن ملكه باتفاق أئمتنا الثلاثة ،كما ذكره في الفتح. قوله:( وعليه الفتوى) :أي على قولهما يلزمه.(الدرالمختار مع ردالمحتار:4/337،338)
قال الشیخ نظام الدین رحمہ اللہ تعالی:القيم إذا اشترى من غلة المسجد حانوتا أو دارا
،وأراد أن يستغل ،ويباع عند الحاجة ،جاز إن كان له ولاية الشراء ،وإذا جاز،لہ أن يبيعه .كذا في السراجية.(الفتاوی الھندیۃ:2/431)
عرفان حنیف
دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی
9 رجب /1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عرفان حنیف بن محمد حنیف | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |