03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ذاتی کاروبار سے خریدی گئی جائیداد میں دیگر ورثہ کا حق نہیں
71992میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میاں اشفاق مرحوم کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،میاں اشفاق کے چار بیٹے ہیں،بڑا بیٹا سہیل اشفاق اور چھوٹے بیٹے کا نام شکیل اشفاق ہے،ان کے علاوہ دو بیٹیاں بھی ہیں،سہیل اشفاق وراثت کے حوالے سے درج ذیل سوالات میں راہنمائی چاہتا ہے:

1۔میاں اشفاق احمد کے کاروبار سے اس کے بیٹوں کا کوئی تعلق نہیں تھا،الحمدللہ میاں اشفاق احمد کے کاروبار نے بہت ترقی کی،ان کا کاروبار ملتان میں تھا،سہیل اشفاق نے اسی دوران اپنا علیحدہ کاروبار کراچی میں شروع کیا،سہیل اشفاق کے اس کاروبار سے والد صاحب اور بھائی شکیل اشفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا،نہ مالی نہ انتظامی،اللہ کے کرم سے سہیل اشفاق کے کاروبار نے بھی ترقی کی اور اس کاروبار سے اپنی ذاتی جائیدادیں خریدیں اور گھر کے جملہ اخراجات سہیل اشفاق خود اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرتا رہا،معلوم یہ کرنا ہے کہ سہیل اشفاق نے اپنے ذاتی کاروبار سے جو جائیدادیں بنائی ہیں،ان کا کیا حکم ہے،کیا وہ میاں اشفاق احمد مرحوم کی وراثت میں شمار ہوگی،اگر والدہ صاحبہ ان کو وراثت میں شمار کرکے ورثہ میں تقسیم کریں تو سہیل اشفاق اعتراض کرسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ سوال کے مطابق سہیل اشفاق نے یہ کاروبار اپنے ذاتی سرمایہ سے شروع کیا اور خود اسے سنبھالا،والد کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا،اس لیے اس کاروبار کے نفع سے سہیل اشفاق نے جو جائیدادیں خریدی ہیں وہ اس کی ذاتی ملکیت ہے،لہذا والدہ کو انہیں والد کی وراثت قرار دے کر تقسیم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،اگر والدہ انہیں میراث قرار دے کر تقسیم کرنا چاہیں تو سہیل اشفاق کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔

حوالہ جات
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 17):
"وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب