021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ کاروبار کے لیے لوگوں اور بینک سے لیے گئے قرض کی ادائیگی کا حکم
71993میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میاں اشفاق مرحوم کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،میاں اشفاق کے چار بیٹے ہیں،بڑا بیٹا سہیل اشفاق اور چھوٹے بیٹے کا نام شکیل اشفاق ہے،ان کے علاوہ دو بیٹیاں بھی ہیں،سہیل اشفاق وراثت کے حوالے سے درج ذیل سوال میں راہنمائی چاہتا ہے:

میاں اشفاق احمد کے کاروبار سے اس کے بیٹوں کا کوئی تعلق نہیں تھا،الحمدللہ میاں اشفاق احمد کے کاروبار نے بہت ترقی کی،ان کا کاروبار ملتان میں تھا،سہیل اشفاق نے اسی دوران اپنا علیحدہ کاروبار کراچی میں شروع کیا،سہیل اشفاق کے اس کاروبار سے والد صاحب اور بھائی شکیل اشفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا،نہ مالی نہ انتظامی،اللہ کے کرم سے سہیل اشفاق کے کاروبار نے بھی ترقی کی اور اس کاروبار سے اپنی ذاتی جائیدادیں خریدیں اور گھر کے جملہ اخراجات سہیل اشفاق خود اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرتا رہا

سوال: شکیل اشفاق نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرلی ۔کچھ عرصہ بعد سہیل اشفاق نے مکمل اپنے ذاتی وسائل سے چھوٹے بھائی شکیل اشفاق کو ایک مشترکہ کاروبار گارمنس کا بناکر دیا،سہیل اشفاق کی نیت یہ تھی یہ کاروبار دونوں بھائیوں کا مشترکہ ہو گا ،اس کے لیے باہمی مشاروت سے بینک سے لون لیا گیا، اس کے لیے کوئی تحریر نہیں لکھی گئی  اور منافع کی تقسیم کے متعلق  بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

 اس کاروبار میں بہت زیادہ نقصان ہوا ،کاروبار میں بالکل بھی نفع نہیں ہوا،اسی وجہ سے سہیل اشفاق کا پہلے سے موجود دھاگے کا کاروبار بھی بند ہوگیااور ہم لوگ بینکوں اور لوگوں کے مقروض ہو گئے ۔

قرض کی ادائیگی کی صورت مکمل وضاحت کے ساتھ :

(1)بینک کا قرض شکیل اشفاق نے ادا کیا)شکیل اشفاق نے اپنے نئے کاروبار سےجو والد صاحب نے بناکر دیااس سے ادا کیا( (نئے کاروبار کی تفصیل اگلے سوال میں آرہی ہے )

(2) لوگوں کا قرض سہیل اشفاق نے ادا کیا،سہیل اشفاق نے اپنے ذاتی اکاونٹ سے  ادا کیا،پوچھنا یہ تھا کہ اس کاروبار کے قرض کی ادائیگی شرعاً کس کے ذمے لازم تھی؟

تنقیح:

سائل سے فون پر استفسار سے معلوم ہوا کہ اس نے سارا سرمایہ اپنا لگایا تھا،بھائی کو آدھا سرمایہ نہ قرض  دیااور نہ ہبہ کیا تھا،بس یہ کہا تھا کہ میرے ساتھ مل کر کام کرو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بینک یا لوگوں سے جو رقم باہمی رضامندی سے قرض لے کاروبار میں لگائی گئی وہ دونوں بھائیوں کا مشترکہ سرمایہ تھا،جس کے نفع و نقصان میں بھی دونوں بھائی برابر کے شریک ہیں اور ان قرضوں کی ادائیگی بھی دونوں کے ذمے نصف نصف لازم ہے،لہذا اگر کسی ایک بھائی نے آدھے قرض سے زیادہ کی ادئیگی کی ہے تو وہ آدھے قرض سے زائد رقم کا دوسرے بھائی سےمطالبہ کرسکتا ہے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (13/ 123):
"ولو استقرض مالا لزمهما جميعا ؛ لأنه تملك مال بالعقد ، فكان كالصرف ، فيثبت في حقه وحق شريكه ؛ ولأنه إن كان الاستقراض استعارة في الحال ، فهويملك الاستعارة ، وإن كان تملكا يملكه أيضا ".
"تنقيح الفتاوى الحامدية" (2/ 99):
"( سئل ) فيما إذا استقرض أحد شريكي العنان مبلغا معلوما من الدراهم لأجل الشركة ويريد الشريك المستقرض أخذ مثل القرض المزبور فهل له ذلك ؟
( الجواب ) : نعم ولو استقرض أحدهما مالا لزمهما لأن الاستقراض تجارة ومبادلة معنى لأنه يملك المستقرض ويلزمه رد مثله فشابه المصارفة أو الاستعارة وأيهما كان نفذ على صاحبه محيط السرخسي من فصل ما يجوز لأحد شريكي العنان أن يعمل في المال" .
"الدر المختار للحصفكي" (5/ 473):
"(دين عليهما لآخر) بأن اشتريا منه عبدا بمائة (وكفل كل عن صاحبه) بأمره (جاز ولم يرجع على شريكه إلا أداه زائدا على النصف) لرجحان جهة الاصالة علي النيابة، ولانه لو رجع بنصفه لادى إلى الدور".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب