021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کا شوہر کے ترکہ کو اپنی مرضی سے تقسیم کرنا
71995میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میاں اشفاق مرحوم کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،میاں اشفاق کے چار بیٹے ہیں،بڑا بیٹا سہیل اشفاق اور چھوٹے بیٹے کا نام شکیل اشفاق ہے،ان کے علاوہ دو بیٹیاں بھی ہیں،سہیل اشفاق وراثت کے حوالے سے درج ذیل سوال میں راہنمائی چاہتا ہے:

میاں اشفاق احمد کے کاروبار سے اس کے بیٹوں کا کوئی تعلق نہیں تھا،الحمدللہ میاں اشفاق احمد کے کاروبار نے بہت ترقی کی،ان کا کاروبار ملتان میں تھا،سہیل اشفاق نے اسی دوران اپنا علیحدہ کاروبار کراچی میں شروع کیا،سہیل اشفاق کے اس کاروبار سے والد صاحب اور بھائی شکیل اشفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا،نہ مالی نہ انتظامی،اللہ کے کرم سے سہیل اشفاق کے کاروبار نے بھی ترقی کی اور اس کاروبار سے اپنی ذاتی جائیدادیں خریدیں اور گھر کے جملہ اخراجات سہیل اشفاق خود اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرتا رہا،معلوم یہ کرنا ہے کہ سہیل اشفاق نے اپنے ذاتی کاروبار سے جو جائیدادیں بنائی ہیں،ان کا کیا حکم ہے،کیا وہ میاں اشفاق احمد مرحوم کی وراثت میں شمار ہوگی،اگر والدہ صاحبہ ان کو وراثت میں شمار کرکے ورثہ میں تقسیم کریں تو سہیل اشفاق اعتراض کرسکتا ہے؟

والدہ صاحبہ نے جو تقسیم کی ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے

1۔سہیل اشفاق کا اپنے ذاتی کاروبار سے بنایا ہوا گھر اور پلاٹ اور دکان یعنی آفس سہیل اشفاق کو دے دیا۔

2۔سہیل اشفاق کے ذاتی کاروبار سے خرید ہوا گھر اور میاں اشفاق احمد اور سہیل اشفاق کے سرمایہ سے بنا ہوا کاروبار شکیل اشفاق کو دے دیا۔

3۔والدہ صاحبہ نے ایک فلیٹ اور سمندر پر موجود ہٹ اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔

4۔بہنوں کو کیا دیا اس کے متعلق سہیل اشفاق لاعلم ہے،اسے کچھ نہیں بتایا گیا۔

5۔بہنیں اگر اپنے حصے کا مطالبہ کریں تو یہ کس کی ذمہ داری ہوگی؟

6۔ وراثت کی تقسیم کی مکمل شرعی رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وفات کے بعد کسی بھی شخص کی ملک میں موجود ترکہ)یعنی وہ جائیداد،سونا،چاندی،نقدی،مالِ تجارت اور ان کے علاوہ کوئی بھی چھوٹا بڑا سامان جو وفات کے وقت اس کی ملکیت میں ہو( اس کی وفات کے وقت موجود ورثہ کی ملکیت میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر چلا جاتا ہے،جسے ان کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے،اس لیے والدہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مرحوم والد کے ترکہ کو ورثہ کے شرعی حصوں کی رعایت رکھے بغیر اپنی مرضی سے تقسیم کردیں،لہذا سوال میں ذکر کی گئی والدہ کی تقسیم شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے،ان پر لازم ہے کہ از سرِنو بیٹیوں سمیت تمام ورثہ کو ان کے شرعی حصے حوالے کردیں،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

میاں اشفاق احمد مرحوم کے کل ترکہ میں سے ٪5ء12 ان کی بیوی کو،٪166ء29 ان کے ہر بیٹے کو،جبکہ ٪583ء14ان کی ہر بیٹی کو ملے گا۔

حوالہ جات
"المستدرك على الصحيحين للحاكم "(4/ 107):
"عن أم سلمة، رضي الله عنها قالت: أتى رجلان النبي صلى الله عليه وسلم يبتدران في مواريث بينهما ليس لهما بينة «فأمرهما النبي صلى الله عليه وسلم أن يقتسما ويتوخيا ثم يستهما وليحلل كل واحد منهما صاحبه» صحيح الإسناد ولم يخرجاه " ومولى أم سلمة هو: عبيد الله بن أبي رافع المخرج له في الصحيحين ".
التعليق - من تلخيص الذهبي: صحيح".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب