021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاروبار کے لیے والدہ کی جانب سے دی گئی رقم کا حکم
71997میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میاں اشفاق مرحوم کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،میاں اشفاق کے چار بیٹے ہیں،بڑا بیٹا سہیل اشفاق اور چھوٹے بیٹے کا نام شکیل اشفاق ہے،ان کے علاوہ دو بیٹیاں بھی ہیں،سہیل اشفاق وراثت کے حوالے سے درج ذیل سوال میں راہنمائی چاہتا ہے:

میاں اشفاق احمد کے کاروبار سے اس کے بیٹوں کا کوئی تعلق نہیں تھا،الحمدللہ میاں اشفاق احمد کے کاروبار نے بہت ترقی کی،ان کا کاروبار ملتان میں تھا،سہیل اشفاق نے اسی دوران اپنا علیحدہ کاروبار کراچی میں شروع کیا،سہیل اشفاق کے اس کاروبار سے والد صاحب اور بھائی شکیل اشفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا،نہ مالی نہ انتظامی،اللہ کے کرم سے سہیل اشفاق کے کاروبار نے بھی ترقی کی اور اس کاروبار سے اپنی ذاتی جائیدادیں خریدیں اور گھر کے جملہ اخراجات سہیل اشفاق خود اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرتا رہا

شکیل اشفاق نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرلی ۔کچھ عرصہ بعد سہیل اشفاق نے مکمل اپنے ذاتی وسائل سے چھوٹے بھائی شکیل اشفاق کو ایک مشترکہ کاروبار گارمنس کا بناکر دیا،سہیل اشفاق کی نیت یہ تھی یہ کاروبار دونوں بھائیوں کا مشترکہ ہو گا ،اس کے لیے باہمی مشاروت سے بینک سے لون لیا گیا، اس کے لیے کوئی تحریر نہیں لکھی گئی  اور منافع کی تقسیم کے متعلق  بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

 اس کاروبار میں بہت زیادہ نقصان ہوا ،کاروبار میں بالکل بھی نفع نہیں ہوا،اسی وجہ سے سہیل اشفاق کا پہلے سے موجود دھاگے کا کاروبار بھی بند ہوگیااور ہم لوگ بینکوں اور لوگوں کے مقروض ہو گئے ۔

سوال:پھر سہیل اشفاق نے ایک اور کاروبار شروع کیا اور یہ کاروبار اللہ کے کرم سے کچھ چل پڑا،مگر اس کے لیے سہیل اشفاق کےپاس سرمایہ کی شدید کمی تھی،مگر وہ کسی نہ کسی طرح چلارہا تھا،اسی دوران اس نے شکیل اشفاق سے کچھ قرض بھی لیا تھا،مگر واپس نہ کرسکا،لیکن اس کی واپسی کا پختہ ارادہ ہے،البتہ والدہ صاحبہ نے جو مالی معاونت کی اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

تنقیح:

سائل سے معلوم ہوا کہ اس نے والدہ سے یہ کہہ کر رقم مانگی تھی کہ مجھے ضرورت ہے،جس پر والدہ نے اسے ایک کروڑ کی رقم دے دی تھی،قرض یا ہبہ وغیرہ کی نہ تصریح کی گئی اور نہ کوئی خاص قسم کی نیت کہ یہ رقم قرض ہے یا ہبہ،نیز دوسرے بیٹے کو بھی والدہ نے اتنی رقم دی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ عام طور پر عرفاً اتنی بڑی مقدار میں رقم ہبہ کے طور پر نہیں دی جاتی،اس لیے ہبہ کی تصریح کے بغیر ایسی رقم قرض شمار ہوگی،لہذا آپ کے ذمے یہ رقم والدہ کو واپس کرنا ضروری ہے،البتہ اگر وہ معاف کردیں تو الگ بات ہے۔

حوالہ جات
"المبسوط للسرخسي" (17/ 60):
"ووجهه أن الهبة تفيد ملك العين والرهن لا يوجب فكان السبب الموجب لملك العين أقوى وجه الاستحسان أن الرهن عقد ضمان والهبة عقد تبرع وعقد الضمان أقوى من عقد التبرع ولأنه يثبت بدلين المرهون والدين والهبة لا تثبت إلا بدلا واحدا فكان الرهن أولى من الهبة وكذلك الرهن أولى من الصدقة والنكاح أولى من الهبة والصدقة؛ لأنه يوجب الملك بنفسه كالشراء فأما الهبة والصدقة سواء، حتى لو ادعى أحدهما الهبة والآخر الصدقة يستويان؛ لأن كل واحد منهما تبرع لا يتم إلا بالقبض فإن (قيل) الصدقة لا رجوع فيها بخلاف الهبة فكانت الصدقة أقوى (قلنا) امتناع الرجوع لحصول المقصود بها وهو الثواب لا لقوة السبب ولو حصل المقصود بالهبة وهو صلة الرحم لم يرجع فيها أيضا".
"رد المحتار" (5/ 688):
"وفي خزانة الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري".
"رد المحتار" (5/ 709):
"أعطت زوجها مالا بسؤاله ليتوسع فظفر به بعض غرمائه إن كانت وهبته أو أقرضته ليس لها أن تسترد من الغريم، وإن أعطته ليتصرف فيه على ملكها فلها ذلك لا له.
دفع لابنه مالا ليتصرف فيه ففعل وكثر ذلك فمات الأب إن أعطاه هبة فالكل له، وإلا فميراث وتمامه في جواهر الفتاوى".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب