021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کی غلط تقسیم کی وجہ سے والدہ پر اعتراض
71998میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میاں اشفاق مرحوم کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،میاں اشفاق کے چار بیٹے ہیں،بڑا بیٹا سہیل اشفاق اور چھوٹے بیٹے کا نام شکیل اشفاق ہے،ان کے علاوہ دو بیٹیاں بھی ہیں،سہیل اشفاق وراثت کے حوالے سے درج ذیل سوال میں راہنمائی چاہتا ہے:

میاں اشفاق احمد کے کاروبار سے اس کے بیٹوں کا کوئی تعلق نہیں تھا،الحمدللہ میاں اشفاق احمد کے کاروبار نے بہت ترقی کی،ان کا کاروبار ملتان میں تھا،سہیل اشفاق نے اسی دوران اپنا علیحدہ کاروبار کراچی میں شروع کیا،سہیل اشفاق کے اس کاروبار سے والد صاحب اور بھائی شکیل اشفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا،نہ مالی نہ انتظامی،اللہ کے کرم سے سہیل اشفاق کے کاروبار نے بھی ترقی کی اور اس کاروبار سے اپنی ذاتی جائیدادیں خریدیں اور گھر کے جملہ اخراجات سہیل اشفاق خود اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرتا رہا،معلوم یہ کرنا ہے کہ سہیل اشفاق نے اپنے ذاتی کاروبار سے جو جائیدادیں بنائی ہیں،ان کا کیا حکم ہے،کیا وہ میاں اشفاق احمد مرحوم کی وراثت میں شمار ہوگی،اگر والدہ صاحبہ ان کو وراثت میں شمار کرکے ورثہ میں تقسیم کریں تو سہیل اشفاق اعتراض کرسکتا ہے؟

والدہ صاحبہ نے جو تقسیم کی ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے

  1. سہیل اشفاق کا اپنے ذاتی کاروبار سے بنایا ہوا گھر اور پلاٹ اور دکان یعنی آفس سہیل اشفاق کو دے دیا۔
  2. سہیل اشفاق کے ذاتی کاروبار سے خرید ہوا گھر اور میاں اشفاق احمد اور سہیل اشفاق کے سرمایہ سے بنا ہوا کاروبار شکیل اشفاق کو دے دیا۔
  3. والدہ صاحبہ نے ایک فلیٹ اور سمندر پر موجود ہٹ اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔
  4. بہنوں کو کیا دیا اس کے متعلق سہیل اشفاق لاعلم ہے،اسے کچھ نہیں بتایا گیا۔
  1. کیا سہیل اشفاق والدہ کی اس تقسیم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے؟جبکہ سہیل اشفاق گھر کا بڑا بھی ہے۔

سہیل اشفاق کو یہ اندیشہ ہے کہ والدہ صاحبہ سے بات کرنے پر وہ ناراض ہوجائیں گی،کیا اس اندیشے کی وجہ سے والدہ سے وراثت کی تقسیم کی بات کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ تو نہیں ہے،نیز تقسیم کے لیے شرعاً آواز اٹھانا کس کی ذمہ داری ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

7۔چونکہ والدہ نے اس تقسیم میں شرعی حصوں کا لحاظ نہیں رکھا،اس لیے جن ورثہ کی حق تلفی ہوئی ہے وہ اس تقسیم کے خلاف آواز اٹھاسکتے ہیں۔

9۔چونکہ والدہ اس تقسیم کے ذریعے شریعت کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں اور وہ دیگر ورثہ کو ایک ناجائز تقسیم پر مجبور کررہی ہیں،اس لیے دیگر ورثہ کے ذمے اس تقسیم پر رضامندی ضروری نہیں،بلکہ وہ والدہ کو مناسب انداز میں اس پرمتنبہ کر سکتے ہیں،اگرچہ اس کی وجہ سے والدہ کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔

اگر ورثہ میں سے کوئی ایسا بڑا موجود ہو جس کی بات دوسرے ورثہ مانتے ہوں تو پھر اس کی ذمہ داری ہے کہ میراث کو شریعت کے مطابق تقسیم کرے،لیکن اگر وہ تقسیم میں شریعت کی پاسداری نہ کرے،بلکہ اپنی من مانی کرے تو پھر دیگر تمام ورثہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس سے شریعت کے مطابق تقسیم پر کامطالبہ کریں،کیونکہ دیگر ورثہ میں سے کسی کے لیے بھی اپنے حصے سے زیادہ لینا جائز نہیں۔

حوالہ جات
۔۔۔۔

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب