021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرض الموت میں والد کا پلاٹ بیچ کر اس کی قیمت سے والدہ کو پلاٹ ہبہ کرنا
71999میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اشفاق احمد مرحوم کا ایک مکان  ملتان میں تھا جو ان کی حیات میں   ہی فروخت کرکے کراچی میں ایک پلاٹ لے لیا اور والدہ صاحبہ کے نام کر دیا ۔

وضاحت : تمام ورثاء کی باہمی رضا بندی سے والدہ صاحبہ کے نام کردیا  ۔ نام پر کرنے کا مقصد مالکانہ حقوق تھے۔.مکمل قبضہ یعنی کاغزات وغیرہ تمام والدہ صاحبہ کے نام پر تھے ۔

پھر سہیل اشفاق نے والدہ صاحبہ سے بطور قرض پلاٹ لیکر فروخت کیا اور لوگوں کا قرض ادا کیا ۔سہیل اشفاق اب بھی مقروض ہے اور کوشش کر رہا ہے اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہیں ۔ معلوم یہ  کرنا ہے کہ یہ پلاٹ والدہ صاحبہ کا شمار ہو گا یا میاں اشفاق احمد مرحوم کی وراثت میں شمار ہو گا ۔

تنقیح:

سائل سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری کچھ سال میاں اشفاق احمد نے بستر پر اس حال میں گزارنے کہ ان کے ہوش و حواس بحال نہیں تھے،والد کا یہ پلاٹ دونوں بھائیوں نے اسی دوران بیچا تھا جب والد اپنے حواس کھوچکے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

باپ اگر بیمار ہوجائے تو بیٹا اس کے مال میں سے اس کی ضروریات اور علاج معالجے کا انتظام کرسکتا ہے،اس کے علاوہ غیر ضروری تصرفات کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،اس لیے مذکورہ صورت میں بیٹوں اور والدہ کو والد کا ملتان میں موجود پلاٹ بیچنے کا اختیار حاصل نہیں تھا

2۔وارث نے اگر مورث کی کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر بیچی اور بعد میں مورث کے انتقال کی وجہ سے وہ چیز اس کی ملک میں آگئی تو ورثہ کی اجازت سے سابقہ بیع نافذ نہیں ہوگی،کیونکہ  بیع کے نفاذ کے لیے غاصب کی ملکیت کا بیع سے مقدم ہونا ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں مورث کے انتقال کے وقت اس کی ملکیت ثابت ہوتی ہے،جبکہ بیع اس نے پہلے کی ہے۔

لہذ امذکورہ صورت میں بیٹوں اور والدہ  کے لیے والد  کے پلاٹ کو بیچنا جائز نہ تھا اور چونکہ والد اجازت کے بغیر انتقال کرگئے،اس لیے اب ورثہ کی اجازت سے سابقہ بیع نافذ نہیں ہوگی،بلکہ تجدید بیع لازم ہے۔

اگر تجدید بیع ممکن نہ ہو تو پھر ورثہ کو سابقہ پلاٹ کی قیمت دینی پڑے گی اور اس قیمت سے خریدے گئے پلاٹ کاہبہ بھی درست نہیں ہوگا،کیونکہ یہ پلاٹ کسب خبیث (ناجائزآمدن)سے خریدا گیاتھا،اس لیے اس پلاٹ کو استعمال میں لانا والدہ کے لیے جائز نہیں ہوگا، بلکہ اسے بیچ کر سابقہ ملتان والے پلاٹ کی قیمت ورثہ کو دینی پڑے گی،جبکہ پلاٹ کی قیمت بڑھنے کی صورت میں جو نفع ہوا ہے،اسے بغیر نیت ثواب صدقہ کرنا لازم ہوگا،البتہ یہ نفع ورثہ کو بھی ان کے حصص کے بقدر دینے کی گنجائش ہوگی۔

حوالہ جات
"الأشباه والنظائر لابن نجيم "(ص: 243):
"لا يجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه ولا ولاية إلا في مسألة في السراجية: يجوز للولد والوالد الشراء من مال المريض ما يحتاج إليه بغير إذنه".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 97):
"إذا مرض الولد أو الوالد فللوالد أو الولد أن يصرف بدون إذن المريض من ماله لمداواته وإطعامه؛ لأن الإذن بمداواة المريض وإطعامه ثابت عادة فاحتياج المريض للمداواة والإطعام بمنزلة الإذن الصريح".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 404):
القسم الثالث: الإجازة بسبب التقدم، وهي الإجازة التي تحصل بتقدم سبب الملك على بيع الفضولي لذلك إذا ضمن صاحب المغصوب الغاصب قيمته يوم غصبه بعد أن باعه الغاصب من آخر يكون ذلك البيع نافذا عليه؛ لأنه لما ضمن الغاصب قيمة المغصوب وقت الغصب صار مالكا له استنادا على ذلك وسبب الملك هنا قد تقدم على بيع الفضولي.
أما إذا تأخر سبب الملك عن بيع الفضولي؛ فلا تكون الإجازة حاصلة وعليه فإذا ضمن الغاصب برضاء المالك قيمة المغصوب أو اشتراه من صاحبه، أو وهبه صاحبه إليه، أو ورثه الغاصب بعد البيع والتسليم من صاحبه؛ فلا يكون ذلك البيع السابق الفضولي نافذا.
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 403):
"قلنا: إن البيع الفضولي يكون نافذا إذا أجيز وإلا؛ فلا يكون نافذا بمجرد وراثة البائع للمبيع، أو شرائه إياه من صاحبه.
فعليه لو باع إنسان مال والده من آخر فضولا وتوفي والده بعد ذلك فأصبح ذلك إرثا لذلك البائع فما لم يجدد البيع لا يكون ذلك البيع نافذا".
"الدر المختار " (5/ 114):
" (و) كذا يشترط قيام (صاحب المتاع أيضا) فلا تجوز إجازة وارثه لبطلانه بموته".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 405):
"يشترط في إجازة صاحب المال، أو وكيله، أو وليه، أو وصيه، أربعة أشياء:
وجود البائع والمشتري والمجيز، وكون المبيع والثمن قائمين للإجازة، وقوع الإجازة قبل الفسخ، وفي الإجازة بشرط وجود ذلك الشرط وإذا كان الثمن من العروض وجوده فإذا هلك أحد الأربعة الأولى، أو لم يوجد شرط من البواقي فالإجازة غير جائزة.
تفصيل الهلاك:
1 - هلاك البائع: فإذا أجاز صاحب المال بيع الفضولي بعد وفاة البائع؛ فلا تكون الإجازة جائزة.
2 - هلاك المشتري: فإذا أجاز المالك البيع بعد وفاة من اشترى من البائع الفضولي؛ فلا يكون صحيحا.
3 - هلاك المجيز: إذا توفي صاحب المال قبل أن يجيز بيع الفضولي وأجاز وارثه؛ فلا تصح الإجازة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب