021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ زمین کے اخراجات کا مسئلہ
72094شرکت کے مسائلمشترک چیزوں کے اخراجات کے مسائل

سوال

ہمارے ہاں چار بھائی ہیں، جن کے والد صاحب  کا شہر میں ایک مکان تھا۔تقریباً بیس پچیس سال پہلے ان  کے والد صاحب کا انتقال  ہوا تو ان کے اس مکان پر کسی نے عدالت میں ملکیت کا کیس کر دیا۔ بارہ سال یہ کیس چلتا رہا۔ ان میں سے ایک بھائی کیس کا سارا خرچ اٹھاتا رہا۔دوسرا بھائی پیشیوں پر جاتا رہا اور وکیلوں کا انتظام وغیرہ بھی اسی کے ذمے تھا۔ اب اس  زمین کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو وہ بھائی جس نے خرچہ کیا تھا ، اس نے کہا کہ میں نے جو خرچ کیا ہے، وہ بھی مجھے الگ سے ملنا چاہیے۔ اُس دور میں کیے گئے خرچ کی وصولی کا طریقہ اس نے یہ متعین کیا کہ حساب کتاب کے بعد کل خرچ ایک لاکھ دس ہزار بنتا ہے۔ اس وقت ایک لاکھ دس ہزار میں جتنا سونا آتا تھا ، اتنے سونے کی جو قیمت آج کے حساب سے بنتی ہے ، وہ مجھے دی جائےاور وہ قیمت تقریباً اکیس بائیس لاکھ بنتی ہے۔ باقی بھائی اتنی رقم دینے پر راضی نہیں۔ کیا اس بھائی کا اس طرح مطالبہ کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس بھائی کا تمام شرکاء سے مقدمے میں ہونے والے خرچ کا مطالبہ کرنا درست ہے، لیکن وہ اتنی رقم کا ہی مطالبہ کرسکتا ہے جتنی اس نے خرچ کی۔ زائد کا مطالبہ درست نہیں۔ لہٰذا مذکورہ تفصیل کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار کا مطالبہ کرسکتا ہے، اس سے زائد کا نہیں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی:  قوله: (في الامتناع): الأولى حذفه؛ لأنه أجنبي في التصرف، لا في الامتناع عنه، إلا أن يقال: قوله: أجنبي: أي كأجنبي، ويكون هذا بيانا لوجه الشبه. (ردالمحتار: 300/4)
وقال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: إذا غلت قيمتها، أو انتقضت فالبيع على حاله، ولا يتخير المشتري، ويطالب بالنقد بذلك العيار الذي كان وقت البيع، كذا في فتح القدير. وفي البزازية عن المنتقى غلت الفلوس، أو رخصت، فعند الإمام الأول والثاني أولا ليس عليه غيرها، وقال: الثاني ثانيا عليه قيمتها من الدراهم يوم البيع والقبض، وعليه الفتوى، وهكذا في الذخيرة، والخلاصة عن المنتقى، ونقله في البحر، وأقره، فحيث صرح بأن الفتوى عليه في كثير من المعتبرات، فيجب أن يعول عليه إفتاء وقضاء.(ردالمحتار: 533/4)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالٰی: لو كان الثمن عشرة دنانير، ودفع إليه الدراهم عوضا عن الدنانير، ثم تقايلا، وقد رخصت الدراهم رجع بالدنانير التي وقع العقد عليها، لا بما دفع، وكذا لو رد بالعيب، وكذا في الإجارة لو فسخت. (البحرالرائق: 113/6)
وقال العلامۃ ابن الھمام رحمہ اللہ تعالٰی: ولا منافاة بين الجبر والمبادلة، فإن المبادلة مما يجري فيه الجبر؛لدفع الضرر عن الغير، كما في قضاء الدين؛ فإن المديون يجبر على قضاء الدين، والديون تقضى بأمثالها، فصار ما يؤدي بدلا عما في ذمته. (فتح القدیر: 458/10)

محمد عبداللہ بن عبدالرشید

دارالإفتاء جامعۃ الرشید کراچی

12/ رجب المرجب/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبد اللہ بن عبد الرشید

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب