021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایصال ثواب کے لیے جانور ذبح کرنے کی پابندی
72100جنازے کےمسائلایصال ثواب کے احکام

سوال

ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ میت کے انتقال کے چوتھے ،پانچویں دن دنبہ یا گائے وغیرہ ذبح کر کے لوگوں کو بلا کر کچا گوشت ان میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ علاقے کے رواج کے مطابق ایصال ثواب کر نے  کا کیا حکم ہے؟ جبکہ علاقے والے اس متعین صورت کو لازم سمجھتے ہیں اور نہ کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایصال ثواب نیک اعمال کے اجرو ثواب کا ہوتا ہے اور نیک عمل وہ ہے جو شریعت کے طریقہ کے مطابق اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ میت کے ایصال ثواب کے لیے شریعت نے کوئی خاص دن یاطریقہ متعین نہیں فرمایا، بلکہ انفرادی طور پر کسی بھی دن کسی بھی نفلی مالی، بدنی عبادت کا ثواب ایصال ثواب کی نیت سے میت کو پہنچ جاتا ہے،بلکہ شریعت میں ایصال ثواب کے لیے مردہ ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ زندہ کو بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔لہذا آجکل ایصال ثواب کے بارے میں عوام میں جو رسم پائی جاتی ہے کہ ضرور کوئی کھانے پینے کا عمل ہونا ضروری ہے، اس کوئی کوئی اصل نہیں، بلکہ یہ  مروجہ طریقہ درج ذیل وجوہ سےخلاف شریعت ہونے کی وجہ سے  واجب الترک رسم ہے۔

۱۔ خاص اس عمل کو ایصال ثواب کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، جوشریعت میں زیادتی کے مترادف ہونے کی وجہ سے ممنوع ومذموم ہے۔

۲۔ چوتھے اور پانچوے دن کی پابندی کی جاتی ہے اور یہ بھی شریعت میں زیادتی کے مترادف اور ممنوع ہے۔

۳۔اس عمل کو میت کے ذمہ واجب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادئیگی سے بھی مقدم سمجھتے ہیں،حالانکہ ایصال ثواب کا عمل کوئی ضروری نہیں ،جبکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ضروری  اور اہم ہے۔

۴۔یہ عمل میت کے ترکہ سے کیا جاتا ہے ،حالانکہ ترکہ میں تمام ورثہ کا حق شامل ہے، جن میں بسا اوقات بچے بھی ہوتے ہیں، جبکہ سب ورثہ کی رضامندی ضروری ہے، جس کو نظر انداز کیا جاتا ہے، نیز ورثہ میں نابالغ بچے ورثہ میں شامل ہوں تو ان کی اجازت بھی شرعا معتبر نہیں۔

۵۔ یہ عمل محض دکھلاوے کے لیے کیا جا تا ہے،جس کی وجہ سے بجائے ثواب کے الٹا گناہ کا شدید خطرہ ہے۔

۶۔ صرف مالداروں اور رشتہ داروں کو بلایا جاتا ہے، جس میں غریب کو کھلانے کا ثواب تو یقینا نہیں اور اگر مقصد بدلہ چکانا ہی ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی امیدبھی رکھنا عبث ہے۔

حوالہ جات
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 240)
مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت
وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه - عليه الصلاة والسلام - دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالا بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالبا من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۱رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے