021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ریکارڈ شدہ آواز کو نعت کے ساتھ ملا کر پڑھنے کا حکم{دھن میں ساز/پیانو کی آوازکاشبہہ ہوتاہے}
72048جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں نعتیں پڑھتا ہوں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم نعت وغیرہ ریکارڈ کرتے ہیں پھر اس کے ساتھ پیانو وغیرہ کی آواز ملاتے ہیں ۔ پیانو چونکہ آلات موسیقی میں سے ہے تو ہم اس کا متبادل استعمال کرتے ہیں اورجس طرح کی آواز پیانو سے نکلتی ہے یا پیانو کی جو آواز ریکارڈ ہوتی ہے ، ویسی ہی آواز منہ سے نکال کر ریکارڈ کر لیتے ہیں پھر اسے نعت کے ساتھ ملا لیتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟جائز ہے یا مشابھت کی وجہ سے ناجائز ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ، اس کے مطابق نعتیہ کلام کے ساتھ بعض اوقات میوزک ہی مکس کیا جاتا ہے اور جو لوگ میوزک مکس نہیں کرتے ہیں ، وہ متبادل طریقہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ پیانو کی دھن بجائی جاتی ہے اور پھر وہی دھن منہ سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے ۔ اس طرح پوری دھن ریکارڈ کر لی جاتی ہے اور بعد میں اس دھن کو نعتیہ کلام کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے ۔ ریکارڈ شدہ آواز اور پیانو کی آواز میں اس معنی میں فرق ہوتا ہے کہ سننے والے کو علم ہو جاتا ہے کہ یہ آواز پیانو کی نہیں ہے ۔ اس کے بعد سوفٹ وئیر کے ذریعے ریکارڈ شدہ آواز کو کسی جگہ موٹا اور کسی جگہ باریک کیا جاتا ہے جس سے ریکارڈ شدہ آواز خاصی حد تک پیانو کی آواز سے مشابہ ہو جاتی ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں صورت مسئولہ کی درج ذیل  دو صورتیں ممکن ہیں :

ایک صورت یہ ہےکہ نعتیہ کلام کے ساتھ پڑھتے وقت ہی آلات موسیقی کا استعمال کیا جائے یابعد میں اس کے ساتھ میوزک ملایا جائے ۔ یہ صورت مطلقاًناجائز اور حرام ہے، کیونکہ آلات موسیقی یا ان سے حاصل کی گئی آواز کا استعمال شرعاًناجائز اور حرام ہےبالخصوص حمدیہ یا نعتیہ کلام کے ساتھ آلات موسیقی کا استعمال اور بھی زیادہ مذموم اور حرام ہے،لہذا اس صورت سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ منہ سے ریکارڈ شدہ آواز کو نعتیہ کلام کے ساتھ ملایا جائے اور اس ریکارڈ شدہ آواز میں مختلف سوفٹ وئیرز کے ذریعے تبدیلی لائی جائے۔اس صورت کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس طرح سوفٹ وئیرزکی مدد سے منہ کی آواز میں اس حد تک تبدیلی کی جاتی ہے کہ سننے والا پیانوکی آواز اورمنہ سے ریکارڈ شدہ آواز میں فرق نہ کر سکےتو یہ صورت بھی قریبی مشابہت کی وجہ سے جائز نہیں ہے ،لہذا اس سے بھی اجتناب ضروری ہے ۔

البتہ اس صورت میں  اگرریکارڈ شدہ آوازمیں سوفٹ وئیرزکی مدد سےصرف ایسی تبدیلی کی جائے،جس سے مقصد آواز کے نشیب و فراز کو درست کرنا ہو اور اس میں موسیقی کی کسی طرز و ترتیب کی ایسی مشابہت بھی پیدا نہ ہو کہ سننے والا پیانوکی آواز اور اس آواز میں واضح طورپر فرق نہ کر سکے تو پھر یہ صورت جائز ہے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 348)
عرف القهستاني الغناء بأنه ترديد الصوت بالألحان في الشعر مع انضمام التصفيق المناسب لها قال فإن فقد قيد من هذه الثلاثة لم يتحقق الغناء اهـ قال في الدر المنتقى: وقد تعقب بأن تعريفه هكذا لم يعرف في كتبنا فتدبر اهـ. أقول: وفي شهادات فتح القدير بعد كلام عرفنا من هذا أن التغني المحرم ما كان في اللفظ ما لا يحل كصفة الذكور والمرأة المعينة الحية ووصف الخمر المهيج إليها والحانات والهجاء لمسلم أو ذمي إذا أراد المتكلم هجاءه لا إذا أراد إنشاده للاستشهاد به أو ليعلم فصاحته وبلاغته، وكان فيه وصف امرأة ليست كذلك أو الزهريات المتضمنة وصف الرياحين والأزهار والمياه فلا وجه لمنعه على هذا، نعم إذا قيل ذلك على الملاهي امتنع وإن كان مواعظ وحكما للآلات نفسها لا لذلك التغني اهـ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 350)
أقول: وهذا يفيد أن آلة اللهو ليست محرمة لعينها، بل لقصد اللهو منها إما من سامعها أو من المشتغل بها وبه تشعر الإضافة ألا ترى أن ضرب تلك الآلة بعينها حل تارة وحرم أخرى باختلاف النية بسماعها والأمور بمقاصدها وفيه دليل لساداتنا الصوفية الذين يقصدون أمورا هم أعلم بها، فلا يبادر المعترض بالإنكار كي لا يحرم بركتهم
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 348)
وقيل إن تغنى ليستفيد نظم القوافي ويصير فصيح اللسان لا بأس به
تفسير الألوسي = روح المعاني (11/ 68)
وفي التاتار خانية اعلم أن التغني حرام في جميع الأديان، وذكر في الزيادات أن الوصية للمغنين والمغنيات مما هو معصية عندنا وعند أهل الكتاب، وحكي عن ظهير الدين المرغيناني: أنه قال من قال لمقرىء زماننا أحسنت عند قراءته كفر. وصاحبا الهداية والذخيرة سمياه كبيرة. هذا في التغني للناس في غير الأعياد والأعراس ويدخل فيه تغني صوفية زماننا في المساجد والدعوات بالأشعار والأذكار مع اختلاط أهل الأهواء والمراد بل هذا أشد من كل تغني لأنه مع اعتقاد العبادة وأما التغني وحده بالأشعار لدفع الوحشة أو في الأعياد والأعراس فاختلفوا فيه والصواب منعه مطلقا في هذا الزمان انتهى.
الفتاوى الهندية (5/ 351)
وإنشاد ما هو مباح من الأشعار لا بأس به وإذا كان في الشعر صفة المرأة إن كانت امرأة بعينها وهي حية يكره وإن كانت ميتة لا يكره وإن كانت امرأة مرسلة لا يكره وفي النوازل.
 
تفسير الألوسي = روح المعاني (11/ 69)
وقد جزم الشيخان يعني النووي والرافعي في موضع بأنه معصية وينبغي حمله على ما فيه وصف نحو خمر أو تشبب بأمرد أو أجنبية ونحو ذلك مما يحمل غالبا على معصية، قال الأذرعي: أما ما اعتيد عند محاولة عمل وحمل ثقيل كحداء الأعراب لإبلهم والنساء لتسكين صغارهن فلا شك في جوازه بل ربما يندب إذا نشط على سير أو رغب في خير كالحداء في الحج والغزو، وعلى هذا يحمل ما جاء عن بعض الصحابة انتهى، وقضية قولهم بلا آلة حرمته مع الآلة، قال الزركشي لكن القياس تحريم الآلة فقط وبقاء الغناء على الكراهة انتهى.
الفتاوى الهندية (5/ 351)
 اختلفوا في التغني المجرد قال بعضهم إنه حرام مطلقا والاستماع إليه معصية وهو اختيار شيخ الإسلام ولو سمع بغتة فلا إثم عليه ومنهم من قال لا بأس بأن يتغنى ليستفيد به نظم القوافي والفصاحة
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 349)
صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

22 رجب 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب