021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم بچی کا نفقہ کس کے ذمے لازم ہے؟
72142نان نفقہ کے مسائلدیگر رشتہ داروں کے نفقحہ کے احکام

سوال

اگر اس بچی کو سسرال والے لے کر جائیں گے تو اس پر جو خرچہ ہوا ہے،وہ ملے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟

تنقیح:سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ اس بچی کے والد کا اپنا گھر ہے،زمین ہے،لیکن مرحوم شوہر کے بھائی نہ اس یتیم بچی کا حصہ دے رہے ہیں اور نہ بیوی کا،نیز دادا کا انتقال ہوچکا ہے،البتہ دادی زندہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کے ورثہ کے ذمے لازم ہے کہ مرحوم کے مال میں سے بیوہ اور اس کی یتیم بچی کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ فوری طور پران کے حوالے کردیں،کیونکہ یتیموں کا مال کھانے پر قرآن مجید میں سخت وعید وارد ہوئی ہے،چنانچہ سورہ نساء میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا } [النساء: 10]

ترجمہ:یقین رکھو کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں،وہ اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اور انہیں جلد ہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہونا ہوگا۔(آسان ترجمہ قرآن)

اور پھر مرحوم والد کی وراثت میں سے اس بچی کے حصے میں جو مال آئے اسی میں سے اعتدال کے ساتھ اس پر خرچ کیا جائے گا،جب وہ ختم ہوجائے تو پھر اس بچی کا خرچہ اس کی والدہ اور چچا پر اثلاثاً لازم ہے،یعنی ایک حصہ والدہ پر،جبکہ دو حصے چچا پر لازم ہے،بشرطیکہ والدہ کےپاس بچی پر خرچ کرنے کے لیے اتنا مال ہو،ورنہ سارا خرچہ اس کے چچا پر لازم ہے۔

نیز اب تک بچی کے نانانے اس پر جو خرچہ کیا ہے چونکہ وہ اس کے چچا کی اجازت اور رضامندی کے بغیر اپنی طرف سے کیا ہے،اس لیے اس خرچے کا اس بچی کے چچا سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

حوالہ جات
"الهداية في شرح بداية المبتدي" (2/ 292):
"إنما تجب النفقة على الأب إذا لم يكن للصغير مال أما إذا كان فالأصل أن نفقة الإنسان في مال نفسه صغيرا كان أو كبيرا".
"رد المحتار" (3/ 625):
"القسم السادس: الأصول مع الحواشي، فإن كان أحد الصنفين غير وارث اعتبر الأصول وحدهم ترجيحا للجزئية ولا مشاركة في الإرث حتى يعتبر فيقدم الأصل سواء كان هو الوارث أو كان الوارث الصنف الآخر، مثال الأول ما في الخانية: لو له جد لأب وأخ شقيق فعلى الجد. اهـ
ومثال الثاني ما في القنية: لو له جد لأم وعم فعلى الجد. اهـ. أي لترجحه في المثالين بالجزئية مع عدم الاشتراك في الإرث؛ لأنه هو الوارث في الأول، والوارث هو العم في الثاني، وإن كان كل من الصنفين أعني الأصول والحواشي وارثا اعتبر الإرث. ففي أم وأخ عصبي أو ابن أخ كذلك أو عم كذلك، على الأم الثلث وعلى العصبة الثلثان بدائع".
"الدر المختار " (3/ 594):
"(والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

17/رجب1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب