021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بالغہ لڑکی کا والد کی اجازت کے بغیرنکاح کرنے کا حکم
72183نکاح کا بیاننکاح صحیح اور فاسد کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک آدمی بنام عمران ﴿فرضی نام﴾جو کہ 32،30 سال کی عمر کا شادی شدہ ہے اور چاربچے بھی ہیں ۔ اس شخص نے پڑوس کی ایک لڑکی،جس کی عمر تقریبا14 سال ہے اوروہ غیر شادی شدہ با کرہ ہے، اسے اپنے گھر سے اٹھایا یا لڑکی اپنی مرضی سے ان کے ساتھ گئی۔ بہرحال تین چار دن بعد پتہ چلا کہ یہ دونوں پشین سے پنجاب پہنچ گئے ہیں اور رابطہ کرنے پر پتہ چلا کہ اس شخص نے اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرلیا ہے اور دعوی یہ کرتا ہے کہ لڑکی نے میرے ساتھ اپنی رضامندی اور خوشی سے نکاح کیا ہے، جبکہ لڑکی کا والد اس نکاح کو مسترد کرتا ہے اور اس شخص سے اپنی لڑکی کی حوالگی کا اور ہتک عزت کا دعوی کرتا ہے۔

لہٰذا اس صورت میں مندرجہ ذیل سوالات کے مفصل اور مدلل جوابات مطلوب ہیں:

  1. کیا اس طرح نکاح شرعا منعقد ہوتا ہے،باوجود یہ کہ لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ میری بچی کم سن اور ناسمجھ ہے اور یہ شخص میری بچی کا کفو بالکل بھی نہیں ہے۔
  2. اگر یہ نکاح منعقد ہو گیا ہے تو لڑکی کے والدکوفسخ کرنے کا اختیار ہے یانہیں؟
  3. اگر یہ نکاح شرعا منعقد نہیں ہوا ہے تو اس شخص کا لڑکی کے ساتھ رہنا اورلڑکی سے ہم بستری کرنازنا کے زمرے میں آتا ہے؟

تنقیح:لڑکی بالغہ ہے اور بقول مستفتی کے عمران نامی شخص کا معاشرے میں آوارہ قسم کے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے،(گویا مستفتی کو لڑکے کی چال چلن پر شبہ ہے)جبکہ لڑکی اور اس کا باپ شریف اور دیندار لوگ ہیں،لہٰذا یہ شخص لڑکی کا کفو نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کی اجازت کے بغیر لڑکی کا گھر سے بھاگ کر از خود نکاح کرنا شرعاً اور اخلاقاً انتہائی نامناسب اقدام ہے اور شرافت اور پاکدامنی کے بھی خلاف ہے۔شریعت نے اولاد کو یہ تعلیم دی ہے کہ والدین کی رضامندی اور مشاورت سے نکاح کریں اور والدین کو  بھی یہ تعلیم دی ہےکہ شادی کے معاملے میں  اولاد کی بہتری اور ان کی  رضامندی کا خیال رکھیں، تاکہ معاشرے میں اس طرح کے ہتک آمیزواقعات پیش نہ آسکیں۔

اگرعاقلہ بالغہ عورت والد کی اجازت کے  بغیر کفو میں نکاح کرے، تو ایسا نکاح شرعاً  منعقد ہو جاتا ہےاور والد کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔البتہ اگر غیر کفو میں نکاح کرے تو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔کفو میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں:نسب،مال داری،دین داری  اورپیشہ،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

نسب سے مراد یہ ہے  لڑکی سید زادی یا صدیقی،فاروقی،عثمانی اور علوی وغیرہ خاندان کی ہو اور لڑکا ان خاندانوں سے نہ ہو۔مال داری  سے مراد یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کو مہر اور نفقہ  دینے کی استطاعت رکھتا ہے یا نہیں۔دین داری سے مراد یہ ہےکہ لڑکی نیک اورصالح و پارسا ہو ، جبکہ لڑکا شرابی،بدکار اور فاسق ہو ۔ پیشے سے مراد  ہےکہ ایسا پیشہ جولڑکے کے خاندان میں چلتا  آرہا ہو اور اس پیشے کے اثرات انسان کے اخلاق و عادات اور طور طریقے پر پڑتے  ہوں اور معاشرہ میں لڑکے کا پیشہ لڑکی کے گھر والوں کے پیشے سے کمتر اور گھٹیا سمجھا جاتا ہو تو ایسی صورت میں بھی کفاءت میں برابری نہیں ہوگی۔

 واضح رہے کہ شرعاً لڑکے لڑکی کی عمرمیں فرق سےکفاءت پر اثر نہیں پڑتا ۔ان اوپر ذکر کردہ شرائط پر اگر لڑکا پورا نہیں اترتا تو یہ نکاح غیر کفو میں ہے اور منعقد نہیں ہوگا اور اگر پورا اترتا ہے تو یہ نکاح منعقد ہوگا اور والد اسے ختم نہیں کرسکتا۔

تنقیح سے معلوم ہوا ہے کہ لڑکا برادری سے ہی تعلق رکھتا ہے اورمستفتی نے چال چلن پر جو شبہات  ظاہرکیے ہیں،وہ  اتنے واضح نہیں کہ ان  کی بنیاد پر  کفو نہ ہونے کا اعتبار کیا جائے۔بہتر یہ ہے کہ  علاقہ کے علماء و مفتیانِ کرام کو اس معاملے میں حکم بنایا جائے،جو معاملےکی صحیح صورتِ معلوم کرکےاور فریقین کے حالات کی جانچ پڑتال کرکے فیصلہ کر سکیں۔ 

حوالہ جات
 قال الشیخ نظام رحمہ اللہ تعالی :الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح، ولا تعتبر في جانب النساء للرجال. الكفاءة تعتبر في أشياء ،منها النسب ومنها إسلام الآباء ومنها الكفاءة في المال: وهو أن يكون مالكا للمهر والنفقة، وهو المعتبر في ظاهر الرواية وإن كان يقدر على نفقتها بالكسب ولا يقدر على المهر ،اختلف المشايخ فيه، عامتهم على أنه لا يكون كفئا، كذا في المحيط. والمراد بالمهر المعجل وهو ما تعارفوا تعجيله،  ولا يعتبر الباقي، ولو كان حالاومنها الديانة، تعتبر الكفاءة في الديانة،  وهذا قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى ،وهو الصحيح، كذا في الهداية ،فلا يكون الفاسق كفئا  للصالحة ،  كذا في المجمع سواء كان معلن الفسق أو لم يكن ومنها الحرفة.(الفتاوی الھندیۃ:1/290,91)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : قوله:( وأما في العجم): المراد بهم من لم ينتسب إلى إحدى قبائل العرب، ويسمون الموالي والعتقاء كما مر، وعامة أهل الأمصار والقرى في زماننا منهم، سواء تكلموا بالعربية أو غيرها، إلا من كان له منهم نسب معروف كالمنتسبين إلى أحد الخلفاء الأربعة أو إلى الأنصار ونحوهم . (رد المحتار:3/84)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وروى الحسن عن الإمام أنه إن كان الزوج كفؤا نفذ نكاحها ،وإلا فلم ينعقد أصلا.(البحر الرائق :3/117)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی : (وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة (فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه ،وما لا فلا (ويفتى) في غير الكفء (بعدم جوازه أصلا) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : قوله:( فنفذ إلخ) :أراد بالنفاذ الصحة وترتب الأحكام من طلاق وتوارث وغيرهما ،لا اللزوم، إذ هو أخص منها؛ لأنه ما لا يمكن نقضه ،وهذا يمكن رفعه إذا كان من غير كفء. قوله: (وهو المختار للفتوى) :وقال شمس الأئمة وهذا أقرب إلى الاحتياط ،كذا في تصحيح العلامة قاسم. (الدرالمختار مع ردالمحتار:3/57)
قال العلامۃ بداماد أفندي رحمہ اللہ تعالی :(وروى الحسن عن الإمام) :وهو رواية عن أبي
يوسف رحمہ اللہ تعالی  (عدم جوازه) أي عدم جواز نكاحها إذا زوجت نفسها بلا ولي في غير الكفء ،وبه أخذ كثير من مشايخنا؛ لأن كم من واقع لا يرفع (وعليه فتوى قاضي خان) وهذا أصح وأحوط ،والمختار للفتوى في زماننا.( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:1/332)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

16 رجب /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب