021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایلفی وغیرہ لگ جانے سے وضوء کا حکم
72416پاکی کے مسائلوضوء کے فرائض

سوال

ہاتھ پر گلو ، ایلفی یا رنگ وغیرہ لگ جائے تو پھر وضوء اور غسل کا کیا حکم ہے؟ اور ایک شخص نے اگر مصنوعی دانت لگوائے ہیں تو اِس صورت میں وضوء اور غسل کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر ہاتھ پر گلو، ایلفی، رنگ یا اِس قسم کی کوئی خشک چیز لگ جائے تو پانی کھال تک نہیں پہنچتا، لہذا حتی الامکان اُسے اتارنا لازم ہے، اِس کے بغیر وضوء اور غسل نہیں ہوگا۔ تاہم اگر ایلفی وغیرہ حتی الامکان کوشش کرنے کے باوجود مکمل طور پر نہ اترے، بلکہ کچھ باقی رہ جائے تو پھر اُسے اتارنا ضروری نہیں، اِس کے باوجود بھی وضوء اور غسل ہوجائے گا۔

اگر مصنوعی دانت ایسے ہوں کہ اُن کے نیچے تک پانی پہنچتا ہو تو غسل میں اُنہیں نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر ایسے ہوں کہ اُن کے نیچے تک پانی نہ پہنچتا ہو تو اِس صورت میں اگر انہیں آسانی سے نکالا جاسکتا ہو تو غسل میں انہیں نکال کراندر جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے، البتہ اگر وہ دانت ایسے ہوں کہ انہیں نکالا نہ جاسکتا ہو تو پھر وہ جسم کا حصہ سمجھے جائیں گے اور غسل کے دوران اُن کے اوپر پانی پھیرنے سے غسل ہوجائے گا۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الکاساني رحمہ اللہ تعالی: وأما ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة، حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة؛ لقوله تعالى: وإن كنتم جنبا فاطهروا. [المائدة ٦] أي: طهروا أبدانكم، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن، فيجب تطهير ما يمكن تطهيره منه بلا حرج. (بدائع الصنائع: 1/34)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف، به يفتى. وقيل: إن صلبا منع، وهو الأصح.(الدر المختار مع رد المحتار: 1/154)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: الدرن الوسخ، وأشار بهذا إلى أن المراد بالدرن هنا المتولد من الجسد، وهو ما يذهب بالدلك في الحمام، بخلاف الدرن الذي يكون من مخاط الأنف، فإنه لو يابسا يجب إيصال الماء إلى ما تحته، كما مر. (رد المحتار: 1/154)
وقال أیضا: وهو إسالة الماء مع التقاطر، كما مر في أركان الوضوء. والظاهر أن هذه الأشياء تمنع الإسالة، فالأظهر التعليل بالضرورة. (رد المحتار: 1/154)
وقال أیضا: صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن. اهـ. (رد المحتار: 1/154)
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (لا) يجب (غسل ما فيه حرج، كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)، بل يندب، هو الأصح، قاله الكمال، وعلله بالحرج، فسقط الإشكال. وفي المسعودي: إن أمكن فسخ القلفة بلا مشقة يجب، وإلا، لا.(الدر المختار مع رد المحتار: 1/152)

صفی ارشد

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

26/رجب/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب