72417 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
دکاندار سے ادھار کوئی چیز لے لی اور قیمت دینے کا وقت مقرر نہیں کیا، بلکہ بتایا کہ میں آپ کو ایک مہینے کے اندر اندر ادا کردوں گا تو اِس کا کیا حکم ہے؟ اور دونوں کو یقین ہے کہ ہمارا اِن پیسوں پر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں ایک مہینہ کی مہلت قیمت ادا کرنے کی آخری مدت ہے، لہذا مدت معلوم ہونے کی وجہ سے یہ عقد درست ہے، البتہ اگر خریدار اِس مدت سے پہلے ادا کردے تو یہ اُس کی طرف سے احسان ہوگا اور اِس سے حکم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالی: (وصح بثمن حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع. ولو باع مؤجلا صرف لشهر، به يفتى. (الدر المختار مع رد المحتار: 4/531)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: من جهالة الأجل ما إذا باعه بألف على أن يؤدي إليه الثمن في بلد آخر، ولو قال: إلى شهر على أن يؤدي الثمن في بلد آخر جاز بألف إلى شهر، ويبطل الشرط. (رد المحتار: 4/531)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: قوله: (وصح بثمن حال وبأجل معلوم) أي البيع؛ لإطلاق النصوص. وفي السراج الوهاج: إن الحلول مقتضى العقد وموجبه والأجل لا يثبت إلا بالشرط. اهـ. قيد بعلم الأجل؛ لأن جهالته تفضي إلى النزاع. (البحر الرائق: 5/301)
صفی ارشد
دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی
26/رجب/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی ارشد ولد ارشد ممتاز فاروقی | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |