72547 | نماز کا بیان | نماز کےمتفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جماعت سے پہلے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب کسی نماز کا وقت داخل ہو جائے تو نماز ادا کرنا جائز ہوتا ہے۔ البتہ مردوں کے لیے کیونکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ قریب بواجب کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مرد بلاعذر جماعت سے پہلے نماز ادا کر لے تو اس کی نماز تو ہوجائے گی، لیکن جماعت چھوڑنے کا گناہ ملے گا۔ لہٰذا بلاعذر جماعت کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ خواتین کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ اول وقت میں نماز پڑھا کریں، لہٰذا ان کے لیے مسجد کی جماعت کا انتظار کرنا ضروری نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: الأصل في مشروعية الأذان الإعلام بدخول الوقت. (ردالمحتار: 383/1)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالٰی: (والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط.
وقال تحتہ العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ تعالٰی: وفي النهر عن المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة….. وقال في شرح المنية: والأحكام تدل على الوجوب، من أن تاركها بلا عذر يعزر، وترد شهادته، ويأثم الجيران بالسكوت عنه….. أثم بتركها مرة مبني على القول بأنها فرض عين عند بعض مشايخنا، كما نقله الزيلعي وغيره، أو على القول بأنها فرض كفاية، كما نقله في القنية عن الطحاوي والكرخي وجماعة، فإذا تركها الكل مرة بلا عذر أثموا، فتأمل. (ردالمحتار: 552/1)
محمد عبداللہ بن عبدالرشید
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
26/رجب المرجب/ 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عبد اللہ بن عبد الرشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |