021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رہائشی بلڈنگ کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل اس کا بعض غیر متعین رقبہ بیچنے کا حکم
72682خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ

ایک ادارہ رہائشی بلڈنگ بنا کر اس میں سے فلیٹس بیچتا ہے ۔ اگر کوئی پورا فلیٹ ( کم از کم 750 فٹ ہے )نہیں خرید سکتا تو وہ کچھ ایریا خرید کر مختلف فنڈنگ راؤنڈز میں فلیٹ جتنا ایریا خرید لے ۔ اگر تکمیل تک خریدار فلیٹ جتنا ایریا نہیں خرید پاتا تو وہ یا تو اپنا خریدا ہوا ایریا بیچ دیں یا کرایہ پر دے دیں ۔ بلڈنگ کی تکمیل کے بعد جو کرایہ مارکیٹ کے حساب سے بنے گا ، وہ ادارے سے لےلے یا پورا فلیٹ استعمال کرے ، بقیہ فلیٹ جو اس کی ملکیت نہیں ہے اس کا کرایہ ادا کرے  اور جو ایریا خرید لیتا ہے وہ متعین نہیں ہو گی کہ بلڈنگ میں کونسی منزل پر ہے ، البتہ اگر کوئی پورا فلیٹ ابھی سے خرید کر متعین کرنا چاہتا ہے تو ادارہ اس کو وہ متعین جگہ ( فلیٹ ) بھی دے رہا ہے ۔ادارہ اس بات کا پابند ہے کہ جتنے ایریا کی بلڈنگ ہے ،اتنا ہی بیچے گا ۔ اس سے زیادہ نہیں ۔

ادارے نے قسطوں کی جگہ مختلف فنڈنگ راؤنڈز رکھے ہیں ، جن میں سے خریدار مختلف راؤنڈز میں 100 یا 200 مربع فٹ یا زیادہ ایریا خریدتے جائیں اور تکمیل تک فلیٹ مکمل کر لیں ۔ اسی دوران اگر خریدار کسی وجہ سے اپنا خریدا ہوا ایریا کمپنی کو واپس کرنا چاہے اور کمپنی اس سے موجودہ ریٹ پر لینا چاہ رہی ہے ( جو اس کی قیمت خرید سے زیادہ ریٹ ہے ) تو کیا یہ درست ہے ؟

مذکورہ بالا صورتوں کا شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔ اگر کوئی صورت ناجائز ہے تو اس کی جائز صورت کی وضاحت فرمائیں ۔

تنقیح: سائل نے بتایا کہ یہ 11 منزلہ عمارت کا پروجیکٹ ہے ۔ لوگوں سے فنڈنگ کے لیے 13 فنڈنگ راؤنڈز رکھے ہیں ۔ جو پورا فلیٹ خریدنا چاہے ، اس کو اس کی رقم کے عوض پورا فلیٹ دیا جاتا ہے اور نشاندہی بھی کر دی جاتی ہے کہ فلیٹ کس منزل پر ہے ، البتہ جو یکبارگی فلیٹ نہیں خرید سکتا ، اس کواس کی رقم کے عوض عمارت کا غیر متعین رقبہ بیچا جاتا ہے ۔ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں زیر تعمیر عمارت کے فلیٹ بیچنے کی ممکنہ دو صورتیں ہیں :

ایک یہ ہے کہ جو بندہ مکمل فلیٹ کی قیمت ادا کرنا چاہے ، اسے ایک متعین منزل پر ایک فلیٹ بنا کردینے کا عقد کیا جاتا ہے ، جبکہ اس فلیٹ کے مواصفات ( رقبہ ، کمرے وغیرہ ) بھی پہلے سےبیان کر دیے جاتے ہیں ۔ یہ صورت استصناع کے طور پرجائز ہے ، بشرطیکہ اس صورت میں پہلے سے یہ بات واضح ہو کہ ایک متعین منزل پر فلیٹ بنا کردیا جائے گااور عمارت کا ایک غیر متعین رقبہ نہیں بیچا جا رہا ہوکہ بعد میں نزاع کی کوئی صورت بنے ۔ پھر اس صورت میں پورے فلیٹ کی قیمت کے جو مختلف راؤنڈز مقرر کیے گئے ہیں ،مکمل قیمت ان میں وصول کر لی جائے ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ابتداء میں کسی کو پورا فلیٹ نہ بیچا جائے بلکہ خریدنے والا اپنی سہولت کے حساب سے مختلف فنڈنگ راؤنڈز میں جو پیسے ادا کرتا جائے ، اس کے حساب سے اسے عمارت کا ایک غیر متعین رقبہ بیچا جائےاور مختلف فنڈنگ راؤنڈز میں اگر پورے فلیٹ کے پیسے ادا کر دیے جائیں تب بھی خریدے جانے والی فلیٹ کی تعیین آخر میں کی جائے  ، یہ صورت جائز نہیں ہے ۔ شرعاًایسی چیز کی خرید و فروخت کرنا درست نہیں ہے جس کا علم نہ ہو یا اس طورپر مجہول ہو کہ بعد میں فریقین کے درمیان اس کی تعیین کے حوالے سے  نزاع کا اندیشہ ہو۔

دوسری صورت کے جواز کی ممکنہ صورت یہی ہے کہ نقشے کے اعتبار سے عمارت میں جتنے فلیٹ بن سکتے ہیں ، صرف ان فلیٹوں کو تمام مواصفات کا ذکر کر کےآگے بیچا جائے ۔عمارت کا غیر متعین رقبہ نہ بیچا جائے ۔ جو شخص ان فنڈنگ راؤنڈز میں مکمل ادا ئیگی نہ کرے ، اس کو فلیٹ کا قبضہ نہ دیا جائے ۔ واضح رہے کہ اس طرح فلیٹ بک کروا کر اس کو آگے بیچنا تب ہی جائز ہو گا جب بک کروانے والا فلیٹ پر قبضہ کر لے ۔ قبضے سے پہلے فلیٹوں کی فائلیں آگے بیچنے کا کاروبار جائز نہیں ہو گا ۔ 

حوالہ جات
فقہ البیوع ( ج:1، ص:604)
والصورۃ الثانیۃ : ان تکون الارض ملکا للصانع ، ویطلب منہ المستصنع ان یبنی علیھا بیتا، او مکتبا او دکانا ۔ ومنہ ما جری بہ العمل من ان صاحب الارض الخالیۃ یعمل خطۃ لبناء کبیر یحتوی علی شقق سکنیۃ ، او مکاتب او محلات ، ثم یدعو الناس للاکتتاب، فیدفعون الیہ مبالغ ، ثم یسلم الیھم الشقق بعد اکتمالھا، فھو مخرج علی الاستصناع ، فالمکتتبون یعقدون مع صاحب الارض استصناع الشقۃ او المکتب او محل تجاری بمواصفات معلومۃ حسب التصمیم۔ فیجوز ذلک بشروط الاستصناع۔ولکن ما یفعلہ بعض الناس من بیع الشقۃ او المکتب قبل اکتمال بناءہ، وقبل ان یقع التسلیم ، فانہ لا یجوز لما ذکرنا من ان المصنوع لیس ملکا للمستصنع قبل التسلیم، فھو بیع لما لا یملکہ الانسان، وھو ممنوع بنص الحدیث۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 138)
وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج بأن قال: بعت ولد ولد هذه الناقة وكذا بيع الحمل؛ لأنه إن باع الولد فهو بيع المعدوم، وإن باع الحمل فله خطر المعدوم، وكذا بيع اللبن في الضرع؛ لأنه له خطر لاحتمال انتفاخ الضرع.
 
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 77)
قال: "وإن استصنع شيئا من ذلك بغير أجل جاز استحسانا" للإجماع الثابت بالتعامل. وفي القياس لا يجوز لأنه بيع المعدوم، والصحيح أنه يجوز بيعا لا عدة، والمعدوم قد يعتبر موجودا حكما، والمعقود عليه العين دون العمل، حتى لو جاء به مفروغا لا من صنعته أو من صنعته قبل العقد فأخذه جاز، ولا يتعين إلا بالاختيار، حتى لو باعه الصانع قبل أن يراه المستصنع جاز، وهذا كله هو الصحيح.

عبدالدیان اعوان

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

4 شعبان 1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالدیان اعوان بن عبد الرزاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب