021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پشتو الفاظ ٓسے طلاق کا حکم{"اوہ لارے دی، اوہ واڑہ لارے درتہ خلاصے دی، چی پہ کمہ لارہ زے نو زہ””زہ تاتہ خزہ نہ وایم، وس پہ دے کور کے دا ستا حال دا سپی دئ، ما زان لہ بل زائی وادہ کڑے دہ”}
72680طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماءکرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں۔

ایک آدمی جھگڑے کی حالت میں پشتو میں اپنی بیوی سے کہتا ہے: "اوہ لارے دی، اوہ واڑہ لارے درتہ خلاصے دی، چی پہ کمہ لارہ زے نو زہ" (سات راستے ہیں، ساتوں راستے آپ کے لیے کھلے ہیں جس راستے سے جانا چاہتی ہو چلی جاؤ)۔ اور یہ الفاظ بھی کئی دفعہ جھگڑے کی حالت میں کہے ہیں: "زہ تاتہ خزہ نہ وایم، وس پہ دے کور کے دا ستا حال دا سپی دئ، ما زان لہ بل زائی وادہ کڑے دہ" (میں آپ کو بیوی نہیں کہتا اور ابھی اس گھر میں آپ کا حال کتیا کا ہوگا، میں نے اور جگہ شادی کر لی ہے)۔ مذکورہ دونوں باتوں کی مجلس الگ الگ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. ذکر کردہ پہلا جملہ کنایات (یعنی طلاق کے محتمل الفاظ) میں سے ہے، جس سے طلاق کا معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے اور دیگر معانی بھی، نیز یہ جملے غصے کے وقت ادا کیے گئے ہیں۔ لہذا اگر طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوئی ہے، اگر نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔
  2. یاد رہے کہ طلاق کی نیت سے مراد اس وقت کی نیت ہے جب مذکورہ شخص یہ الفاظ ادا کر رہا تھا (یعنی غصے اور جھگڑے کے وقت)، بعد کی نیت معتبر نہیں کہ وہ یہ کہے اب میں طلاق نہیں چاہتا، اب میری نیت نہیں یا اب میرا طلاق کا ارادہ نہیں۔
  3. طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ فوری طور پر رشتہ نکاح ختم ہو جاتا ہے اور شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا۔ تجدید نکاح سے قبل میاں بیوی کا ایک ساتھ رہنا یا ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں۔ تجدید نکاح کے بعد آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاق کا اختیار باقی رہ جاتا ہے۔
  4. طلاق بائن کے بعد اگر وہ دونوں نکاح قائم کرنا چاہتے ہیں اور میاں بیوں کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ دوبارہ گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کی تجدید کرلیں۔ تجدید نکاح عدت کے دوران بھی ہو سکتا ہے اور عدت کے بعد بھی۔
حوالہ جات
اللباب في شرح الكتاب (3/ 43):
لكن (كانا في ‌غضب ‌أو ‌خصومة وقع الطلاق) قضاء أيضا (بكل لفظ لا يقصد به السب والشتيمة) ، لأن الغضب يدل على إرادة الطلاق (ولم يقع بما يقصد به السب والشتيمة إلا أن ينويه) ...وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187)
فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 257)
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها  لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في إطلاقه .

ناصر خان مندوخیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

5/08/1442 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ناصر خان بن نذیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب